آیت اللہ علامہ ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی کی خدمات

(شیعہ برادری سے معذرت کے ساتھ)
تحریر: ایم آر فرخ ،ایم اے صحافت۔ ایڈیٹر ہفت روز آواز نیویارک
قارئین!مجھے امریکہ میں رہتے ہوئے 24 سال گزر چکے ہیں۔میرا اکثر و بیشتر وقت نیویارک میں گزرا۔24 سال کے میرے شب و روز صحافتی خدمات انجام دینے میں بسر ہوئے۔جب میں نیویارک آیا تھا تو فرقہ واریت کے تھوڑے بہت اثرات مسلمانوں میں باقی تھے۔کبھی کبھار کسی نہ کسی چھوٹے بڑے اخبار میں فرقوں کے خلاف مضامین یا خبریں شائع ہو جاتی تھیں۔تاہم شیعہ و سنی علمائے کرام کا کردار عموما مثبت رہا۔امام الخوئی اسلامک سنٹر یا شاہ نجف برینٹوڈ یا مینھیٹن کے محرم کے جلوس یا جعفریہ کونسل کے اجتماعات یا پریس کانفرنسز وغیرہ میں جہاں عزادران امام حسینؑ شیعہ علماء و برادری ایکٹیو نظر آتی وہاں ایکٹویسٹ کے طور پر ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ صف اول میں موجود ہوتے۔اللہ نے انہیں بلا کا حافظہ عطا کیا ہے ایک ایک مجلس میں سو سو آیات کا حافظے سے پڑھنا ان کے ریکارڈ میں شامل ہے۔ڈاکٹر صاحب اس وقت علامہ کے نام سے معروف تھے جو کہ آج آیت اللہ کے نام سے مشہور ہو چکے ہیں۔ میں نے منبر ، پوڈیم، جلسے جلوس،سماجی مذہبی، صحافتی ، سیاسی اجتماعات میں انہیں ایک متوازن شخصیت پایا۔مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں جیکسن ہائٹس وغیرہ میں شیعہ کافر کے نعرے لکھے جاتے تھے۔بعض اخبارات میں یزید کو سیدنا اور رضی اللہ عنہ لکھا جاتا تھا۔بعض میں حضرت علیؓ کی مخالفت بھی کی جاتی تھی۔حضرت علیؓ کے والد پر طعن و تشنیع ہوتی تھی اور شیعوں کے عقائد کیخلاف کچھ طاقتیں کو شاں تھیں۔حتیٰ کہ سات محرم، دس محرم ، شام غریباں میں بڑے بڑے ہوٹلز اور ریسٹورنٹ میں بعض مسلمان اپنے بچوں کی شادیاں کرتے تھے۔بعض ٹی وی چینلز شیعہ و سنی کو باہم لڑانے کی کوشش کرتے۔ ان ساری فرقہ وارانہ کاروائیوں کے خلاف ڈاکٹر صاحب نے تحریر و تقریر سے ، گفت و شنید سے، افہام و تفہیم سے،سیاسی و مذہبی حکمت عملی سے ، سمجھداری و خوش اخلاقی سے، جرات و بہادری سے نہ فقط مقابلہ کیا بلکہ وحدت و اتحاد کی تحریک شروع کر کے اسے کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کیا۔اہل سنت کی مساجد میں حاضری ، علمائے اہل سنت اور سنی رہنماوں کے ساتھ میل جول اور طرفین کو درس تحمل و بردباری دے کر اس نہج پر لا کھڑا کیا کہ میلاد النبیﷺ ، عاشورہ اور چہلم کے جلوسوں میں نیو یارک پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قابل تقلید مثال بن گیا۔ 22 سال قبل سے ڈاکٹر صاحب نے جب نیوجرسی سے نیویارک ہجرت کا سوچا اور نتیجہ میں المہدی? سنٹر بروکلین قائم کیا۔تو اتحاد بین المسلمین کی عظیم مثالیں دیکھنے کو ملیں۔قطع نظر مذہبی خدمات کے ان کی سماجی خدمات بھی کم نہیں۔یعنی خدمت دین کے ساتھ خدمت خلق کا جذبہ اس قدر ہے کہ ستمبر 11 کے موقع پر جیلوں میں جا کر ہم وطنوں سے ملاقات کرنا۔ان کے کھانے پینے کا اہتمام کرنا۔ بے گناہوں کو رہائی دلوانا۔حکومتی لیول پر مسلمانوں ، پاکستانیوں کے بارے رائے عامہ ہموار کرنا۔ حتیٰ کہ بانڈز کی صورت میں قیدیوں کی مدد کرنے تک خدمات کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ میں نے تقریبا 20 سال تک بطور ایڈیٹر پاکستان پوسٹ کے علامہ کے آرٹیکلز کو پروف کیا ہے۔وہ سیلف میڈ آدمی ہیں دنیا انہیں کاپی کرتی ہے۔ وہ کہنہ مشق صحافی ہیں۔حالانکہ وہ ٹھوس پنجابی ہیں مگر ان کی تحریروں میں لکھنوی انداز چھلکتا ہے۔انہیں عربی ، فارسی ، اردو ، انگلش ، پنجابی اور سرائیکی پر مکمل عبور حاصل ہے۔ان کی بیسیوں کتب مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔جب سے میں انہیں ملا ہوں تب سے ہمیشہ میں نے انہیں حج پر جاتے ہوئے دیکھا۔میرے بہت سارے دوستوں نے ان کے ساتھ حج کیا ہے۔ جن میں شیعہ کے ساتھ ساتھ اہل سنت بھی شامل ہیں۔سب نے واپسی پر ان کی حج کی خدمات کی تعریف کی ہے۔اللہ نے انہیں کھلا ہاتھ بھی دیا ہے میں نے کسی سائل کو المہدیٰ سنٹر سے خالی ہاتھ پلٹے نہیں دیکھا۔پاکستان میں یتیم خانہ بھی چلا رہے ہیں۔انہوں نے امریکہ سے ایتھکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور قم سے اجتہاد مکمل کیا۔جیسے کے ہمارے اہل سنت میں مفتی کا کورس ہوتا ہے۔ شیعہ میں اجتہاد کا کورس ہوتا ہے۔مجھے معلوم نہیں کہ نجف اشرف سے ان کی وابستگی رہی ہے یا نہیں۔ اکثر و بیشتر سنی علما سے ان کے علم و فضل کی بڑی تعریف سنی ہے۔ٍعلم کے ساتھ کردار کی بلندی کی نعمت سے اللہ نے انہیں نوازا ہے۔امریکہ، پاکستان اور دنیا بھر کے اردو اخبارات میں ان کیمضامین گاہے گاہے آجاتے ہیں۔ میں نے علامہ کو خلوت و جلوت میں علم و عمل کا سنگم، شیعہ سنی اتحاد کا علمبردار ، انسانیت کا خدمت گزار ، ہر دلعزیز ، ملنسار،خوش پوش ، خوش اخلاق اور عفو درگزر کرنے والا عظیم لیڈر پایا۔حرص و طمع ان کے قریب سے نہیں گزرا۔خود پسندی و خودنمائی دیکھنے کو نہیں ملی۔خود ثنائی اور سیلف پروموشن کا گزر نہیں۔کورونا وائرس کے سبب جب کثرت سے اموات ہونے لگیں تو جن علما نے ورثا سے بھی زیادہ بلا تفریق اموات کی خدمت کی ان میں پیش پیش رہے۔جب پیاروں کی لاشوں کو اپنے چھوڑ گئے تو کویڈ 19 کی پروا نہ کرتے ہوئے اس مرد مجاہد نے اپنے ہاتھ سے میتوں کو غسل دئیے ، کفن پہنائے، جنازے پڑھائے اور تدفین کی۔ اس میں کوئی شک نہیں ان کے شاگرد اور دوست ان کے ہمراہ صف اول میں رہے۔ایک امر جس کا ذکر میں بھول گیا وہ غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل کرنا اور کلمہ شہادت پڑھانے کے بعد ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا ان کے لئے باقیات صالحات میں نمایاں درجہ رکھتے ہیں۔یہ امر میرے لئے بڑا ہی باعث حیرت تھا کہ انہوں نے عمر بھر کبھی کسی جنازے یا مرحومین کی خدمت کا معاوضہ نہیں لیا۔حتیٰ کہ میرے حج کرنے والے دوستوں نے بتایا کہ کبھی کسی حاجی سے معاوضہ میں ایک سینٹ وصول نہیں کیا۔مجھے ان کے دوستوں نے بتایا کہ امریکہ میں اکثر اپنی گزر اوقات محنت مزدوری کر کے کرتے ہیں۔
میں امریکہ سمیت بیسیویں واٹس ایپ گروپس میں ایڈ ہوں جن میں متعدد گروپ شیعہ برادری کے بھی ہیں۔مجھے حال ہی میں دو شیعہ گروپس میں علامہ کے بارے میں اہانت آمیز پوسٹیں دیکھنے کو ملیں۔ان گروپس میں شیعہ اور سنی دونوں شامل ہیں اور واٹس ایپ کی تحریریں کوئی پرائیویٹ تحریریں نہیں ہوتیں۔جن میں انتہائی بازاری زبان اور گھٹیا انداز اپنایا گیا ہے۔مثلاً جعلی عالم دین ، جعلی ڈاکٹر اور جعلی آیت اللہ کے الفاظ، عطائی ڈاکٹر ، جعلی مفتی دو نمبر کے صحافی ، بناوٹی مولوی سنے تھے مگر جعلی آیت اللہ پہلی مرتبہ سننے کو ملا۔ ہمیں تو یہی معلوم تھا نجف اور قم سے آیت اللہ کا اعزاز ملتا ہے۔اور اگر کوئی نااہل ایسا لقب لکھوائے تو ادارے فورا اس کی نفی کر دیتے ہیں۔ میں نے یہ پوسٹیں پڑھنے کے بعد آیت اللہ کے دفتر میں رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ہزاروں صفحات پر مشتمل پی ڈی ایف کی صورت میں ان کتابوں کے بنڈل بھیج دئیے جن میں ہر کتاب کے سرورق پر علامہ کے نام کے ساتھ آیت اللہ لکھا تھا۔علامہ کے دفتر نے مجھے بڑی بڑی ہستیوں کی تحریریں بھی ارسال کر دیں جن میں امام خمینی?، آٰیت اللہ سیستانی اور آیت اللہ بشیر وغیرہ شامل ہیں جن میں علامہ صاحب کے علم و عمل کی گواہی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان دو گروپوں کے ایڈمنز کی علامہ کے ساتھ کیا پر خاش ہے ؟ اتنا ضرور معلوم ہے کہ ان کی تحریر سے کوئی قابل اعتماد مواد حاصل نہیں ہوا۔ امریکہ جیسے قانون کے ملک میں جہاں ایم بی بی ایس کو ڈاکٹر نہیں لکھا جاتا۔وہاں کوئی جعلی پی ایچ ڈی لکھوا سکتا ہے ؟ جعلی عالم دین والی بات تو بالکل ہی بھونڈا اعتراض لگتا ہے۔ابھی حال ہی میں شیعوں کے ایک گروپ میں حج کے کچھ کلپس ڈالے گئے۔دس سالہ پرانے کلپس میں کینیڈا کے چند ایک حاجی خانہ کعبہ کے صدر دروازے پر ڈاکٹر صاحب سے الجھتے ہیں۔اور بقول ڈاکٹر صاحب کے آفس کے چوری وڈیو بناتے ہیں۔اور وہ دعوی کرتے ہیں جس کا ڈاکٹر صاحب سے کوئی تعلق نہیں۔حالانکہ دس سال قبل ہی ان ویڈیوز کلپس کی تردید آجاتی ہے۔ تحریر لکھنے کے بعد میں نے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا فرخ میاں! حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میرے پاس مبروص ، جزامی ، اندھے ، اپاہچ ، مفلوج وغیرہ کا علاج ہے۔مگر جاہل مرکب کا میرے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کویڈ 19 کی ویکسین آ گئی ہے مگر بغض و حسد و کینہ کی ابھی نہیں آئی ہے۔میں شیعہ برادری کے ان گروپس کے ایڈمنز سے درخواست گزار ہوں کہ وہ اپنے علما کے خلاف ایسے الزامات نہ لگائیں کہ اگر انہیں کسی انسانی عدالت میں بلایا جائے اور وہ ثبوت نہ دے سکیں اور فردائے قیامت اللہ کی بارگاہ میں شرمسار ہوں۔ان ایڈمنز حضرات میں سے ایک صاحب کی بڑی اہانت آمیز آواز میں نے سنی جس میں وہ دعوی فرما رہے تھے کہ میرے اخبار میں ڈاکٹر صاحب نے ان کا کوئی مقالہ اپنے نام سے چھپوا لیا تھا۔ جس کی میں نے اپنا فون نمبر لکھنے کے ساتھ تردید کی۔میں نے 20 سالوں میں ڈاکٹر صاحب کے بھیجے ہوئے آرٹیکلز میں کسی اور کی تحریر نہیں دیکھی۔ ہاں اتنا یاد آ رہا ہے کسی آدمی کی تحریر انہوں نے فیکس کی تھی اور سفارش کی تھی کہ اسے ادارتی صفحہ پر لگا دی جائے مگر وہ تحریر معیار پر پورا نہیں اترتی تھی اس لئے نہیں لگایا گیا۔اگر کوئی بھی بھائی میرے اس مضمون کا جواب دینا چاہے تو آزادی صحافت کے ساتھ میری اخبار کے صفحات حاضر ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں