بھارتی عدالت نے حریت رہنما یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنا دی

نئی دہلی: بھارتی عدالت نے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کوجھوٹے الزامات پر دو بار عمر قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی ہے۔نئی دلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں غیر قانونی طورپر نظربند جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو بھارتی عدالت نے دہشت گردی کی معاونت کے جھوٹے الزام میں عمر قید کی سزا سنا دی۔حریت رہنما کو مارچ 2019 میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید کیا گیا تھا اور اگلے ماہ بھارت کی تفتیشی ایجنسی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی نے 2 برس پرانے دہشت گردی اورر علیحدگی پسندی کے لیے فنڈنگ کے ایک کیس میں کالے قانون ٹاڈا کے تحت یاسین ملک کو تحویل میں لے لیا تھا۔یاسین ملک پر مختلف بھارتی حکومتوں کے جھوٹے مقدمات کی فہرست کافی لمبی ہے لیکن یہ ہتھکنڈے زندگی کے کئی برس جیلوں اور لاک اپ میں گزارنے والے یاسین ملک کو جدوجہد آزادیٔ کشمیر کی تحریک سے علیحدہ نہ کرسکے۔حریت رہنما یاسین ملک پر 1990 میں بھارتی فضائیہ کے 4 افسران کو قتل کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا تاہم 1995 میں اس کیس میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے اسٹے آرڈر جاری کیا تھا جسے اپریل 2019 میں اسی عدالت نے ختم کر دیا تھا۔بھارتی عدالت میں یاسین ملک پر 1989 میں مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کی بیٹی ربیعہ سعید کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔قبل ازیں عدالت میں ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دلیر کشمیری رہنما یاسین ملک نے کہا تھا کہ میں یہاں بھیک نہیں مانگوں گا۔ آپ نے جو سزا دینی ہے دے دیجیے۔ لیکن میرے کچھ سوالات کا جواب دیجیے۔یایسن ملک نے عدالت سے پوچھا کہ اگر میں دہشت گرد تھا تو بھارت کے 7 وزیراعظم مجھ سے ملنے کشمیر کیوں آتےرہے؟ وزیراعظم واجپائی کے دور میں مجھے پاسپورٹ کیوں جاری ہوا؟یایسن ملک نے مزید کہا کہ اگر میں دہشت گرد تھا تو پورے کیس کے دوران میرے خلاف چارج شیٹ کیوں نہ فائل کی گئی؟ اگر میں دہشت گرد تھا تو مجھے بھارت سمیت دیگر ممالک میں لیکچر دینے کا موقع کیوں دیا گیا؟
اس پر عدالت نے کہا کہ ان باتوں کا وقت گزر گیا۔ اگر آپ کو سزا کے حوالے سے کچھ کہنا ہے تو بولیں۔ حریت رہنما نے جواب دیا کہ میں عدالت سے بھیک نہیں مانگوں گا۔ جو عدالت کو ٹھیک لگے وہ کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں