فسکل اور اسٹرکچرل ریفارمز معاشی مسائل کا حل

لاہور: اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید کا یہ بیان کہ افراطِ زر کو نیچے لانے کے لیے مانیٹری پالیسی کو معاشی تنزلی پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا جائے گا اور مثبت شرح سود طویل المدت طور پر حاصل کی جاسکتی ہے، درست سمت میں اہم قدم ہے۔

ذرائع ابلاغ مسلسل رپورٹ کر رہے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال میں افراطِ زر کی شرح 20 فیصد تک رہے گی، اس تناظر میں مارکیٹوں میں یہ تحفظات پائے جارہے تھے کہ مرکزی بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی میں مزید سختی اقتصادی تنزلی کا سبب بن سکتی ہے۔عالمی مارکیٹ میں اجناس کی قیمتیں بلندی کی جانب گامزن ہیں، اور رواں مالی سال میں ایک اور عالمی اقتصادی بحران کے آثار نظر آرہے ہیں۔ دیگر اُبھرتی ہوئی معیشتوں کی طرح پاکستان کو بھی بڑھتی مہنگائی کا سامنا ہے۔ اقتصادی تنزلی کی وجہ سے غربت اور بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔ایس بی پی ایکٹ 2022ء میں ترمیم کے بعد افراطِ زر اسٹیٹ بینک کا بنیادی ہدف ہے۔ موجودہ مانیٹری اور ایکس چینج ریٹ فریم ورک افراطِ زر پر قابو پانے اور اس بنادی مقصد کے حصول کے دو بنیادی عامل ہیں۔

اسٹیٹ بینک افراطِ زر کی شرح کی پیش گوئی تبدیل کرتا رہا ہے۔ افراطِ زر پر قابو پانے اور اسے مینیج کرنے میں ناکامی سے مارکیٹ میں تغیرپذیری واقع ہوتی ہے اور مارکیٹ قرض گیروں سے بلند پریمیئم چارج کرتی ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ صرف مالیاتی اقدامات سے تمام معاشی چیلنجز حل نہیں ہوسکتے۔یہ اقدامات فسکل اور اسٹرکچرل ریفارمز کو سپورٹ کرسکتے ہیں جو معاشی مسائل حل کرنے کے اصل آلات ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں