Credit to : https://www.news.un.org
نیویارک( آواز نیوز) افغانستان کے لیے ممالک کے خصوصی نمائندوں کی تیسری کانفرنس میں خواتین اور لڑکیوں کو مساوی مواقع فراہم کرنے کا معاملہ بات چیت کے خاص موضوعات میں شامل ہے۔ پہلی مرتبہ ملک کے طالبان حکمران بھی اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی یہ کانفرنس افغانستان کو مزید پرامن اور مشمولہ مستقبل سے ہمکنار کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے زیرقیادت کاوشوں کا حصہ ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قیام امن و سیاسی امور کے لیے اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو نے ملک میں خواتین اور لڑکیوں کی حالت زار پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان اپنی نصف آبادی کو حقوق اور مواقع سے محروم رکھ کر نہ تو بین الاقوامی برادری کا حصہ بن سکتا ہے اور نہ ہی معاشی و سماجی طور پر ترقی کر سکتا ہے۔
روز میری ڈی کارلو نے مزید کہا کہ کانفرنس میں افغان خواتین اور سول سوسائٹی کے خدشات کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔ سیاسی امور اور امن عمل میں خواتین کی بامعنی شمولیت اقوام متحدہ کا رہنما اصول ہے۔ اگرچہ افغان خواتین اور سول سوسائٹی اس کانفرنس میں موجود نہیں ہیں تاہم ان کی آوازیں سن لی گئی ہیں۔ افغانستان کے مستقبل کی تشکیل میں سول سوسائٹی کا لازمی کردار ہے۔ اگست 2021 میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد خواتین اور لڑکیوں کو منظم تفریق کا سامنا کرنا پڑا اور لڑکیوں کے لیے چھٹی جماعت سے آگے تعلیم پر پابندی عائد کر دی گئی۔