اسلام آباد: (آواز نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاقی حکومت سمیت دیگر متاثرین کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور نیب ترامیم بحال کردیں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا سپریم کورٹ نے فیصلہ 0-5 سے سنایا ہے۔جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل ہیں۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان ثابت نہیں کر سکے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو قانون سازی کو ہر ممکن صورت میں برقرار رکھنا چاہیے، نیب ترامیم کو خلاف آئین ثابت نہیں کیا جا سکا۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت اور ججز پارلیمان کیلئے گیٹ کیپر کا کردار ادا نہیں کر سکتے، پارلیمان اور عدلیہ کا آئین میں اپنا اپنا کردار واضح ہے، تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا جائے گا۔جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ چیف جسٹس کے اکثریتی فیصلہ سے اتفاق کرتا ہوں، حکومتی اپیلیں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کےتحت قابل سماعت نہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں، متاثرہ فریقین کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی جاتیں ہیں، نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ججز اور آرمڈ فورسز کے ارکان کو نیب قانون سے استثنی حاصل نہیں، اضافی نوٹ کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے بھی اضافی نوٹ لکھا جس میں انہوں نے فیصلے سے اتفاق لیکن وجوہات سے اختلاف کیا۔عدالت عظمیٰ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر 3 ماہ بعد محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے نیب ترامیم بحال کر دیں، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ 3 رکنی بنچ کا فیصلہ ثابت نہیں کر سکا کہ نیب ترامیم آئین سے متصادم تھیں۔5 رکنی لارجر بنچ نے 3 رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف دائر وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت مکمل ہونے کے بعد 6 جون 2024ء کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
نیب ترامیم کیس کا پس منظر
نیب ترامیم پی ڈی ایم کے دور حکومت میں منظور کی گئی تھیں، نیب ترامیم کے خلاف بانی پی ٹی آئی عمران خان نے درخواست دائر کی تھی۔سپریم کورٹ نے 15 ستمبر 2023 کو نیب ترامیم کالعدم قرار دیں، سپریم کورٹ نے 10 میں سے 9 نیب ترامیم کالعدم قرار دی تھیں جس کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نےسپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔نیب ترامیم میں بہت سے معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکالے گئے اور نیب ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ قرار دیا گیا۔نیب ترامیم کے تحت نیب 50 کروڑ سے کم کے معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکتا، نیب 100 سے زیادہ متاثرین ہونے پر دھوکا دہی مقدمے کی تحقیقات کر سکتا ہے، زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ بعد میں 30 دن تک بڑھایا گیا ہے۔نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا، ریگولیٹری اداروں کو نیب دائرہ کار سے نکال دیا گیا تھا۔