قصر الحمرا کی اداس شام

۔۔(طیبہ ضیا)۔۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طارق بن زیاد اور اس کی سپاہ نے ایک عظیم تاریخ کی بنیاد رکھی تھی جس کو آج صدیوں بعد بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تاریخ اسلام کا ایک روشن باب ہے۔الحمرا محل سمیت بہت سی یادگاریں اور اس شہر کا چپہ چپہ مسلمانوں کے شاندار ماضی اور مختلف تہذیبوں کے ادوار کی گواہی دیتا ہے۔قرطبہ کے راستے میں زیتون کے خوبصورت باغات بہت حسین لگتے ہیں۔ شاہراہ پر کہیں کہیں عربی زبان میں لکھے ہوئے بورڈ بھی نظر آئے۔ سپین کے بیشتر شہروں کے نام مسلم دور میں رکھے گئے جو اب بھی قدرے تبدیلی کے ساتھ مستعمل ہیں۔علامہ نے اس سرزمین کا دورہ کیا اور کیا خوب کہا:
ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امیں ہے
مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحر میں
علامہ اقبال کے اشعار اس محبت کے مظہر ہیں جو ان کو مسلمانانِ اندلس کے ساتھ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی ہر تصنیف میں قرطبہ اور غرناطہ کے زوال پر آنسو بہائے۔
غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے و لیکن
تسکینِ مسافر نہ سفر میں نہ حضر میں
اندلس کے مسلمانوں کا عظیم شہر غرناطہ آج یورپ کے ایک جدید شہر گرینیڈا میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اونچی اونچی عمارتیں، کشادہ سڑکیں، شاپنگ مالز، کلبز اور سیاحوں کا جمِ غفیر جگہ جگہ پر نظر آرہا تھا۔ لیکن قصر الحمرا کے آس پاس پرانے غرناطہ شہر کی یادیں آج بھی اپنے پرانے محرابی دروازوں، حویلیوں اور فواروں والے صحن کے مکانوں کی صورت میں دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہے مگر ایک شکست خوردہ مسلمان کی نظر سے دیکھو تو قصر الحمرا تمام تر حسن و جمال کے باوجود کسی اجڑی ہوئی بیوہ کی اداس شام دکھائی دیتی ہے۔ الحمرا کا قلعہ غرناطہ کی پہاڑیوں کے اوپر بالکل ہمارے سامنے تھا۔ اس قلعے میں غرناطہ پر حکومت کرنے والے بنو نصر حکمرانوں کے محلات موجود ہیں۔ غرناطہ کا شہر ان پہاڑوں کے دامن میں آباد ہے۔ قصر شاہی اس قلعے کا ایک حصہ ہے اور قلعے کے اندر موجود ایوان اور باغات آج بھی دنیا بھر کے لیے جنت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مسلمانوں نے ہسپانیہ پر کوئی آٹھ سو سال تک حکومت کی۔ جہاں انھوں نے علم و فضل کو ترقی دی وہاں شاندار مسجدیں اور محل بھی تعمیر کرائے جن میں غرناطہ کا قصر الحمرا خاص شہرت کا مالک ہے۔ مسلمانوں کے زوال کے بعد ان کی حکومت کے بیشتر نشانات مٹا دیے گئے۔ صرف چند آثار ان کی عظمت پارینہ کے شاہد ہیں۔ الحمرا کی تعمیر 1213ء سے 1345ء کے درمیان ہوئی۔1492ء میں مسلمانوں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد یہ بڑی حد تک تباہ کر دی گئی۔ تاریخ میں 1492ء کا سال خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس برس کوسٹوفر کولمبس نے امریکا کو دریافت کیا اور اسی سال سپین میں 800سال حکومت کرنے کے بعد عربوں کو حتمی شکست ہوئی۔ 8ویں صدی عیسوی سے لے کر 11ویں صدی عیسوی تک سپین میں عربوں کی سلطنت جس کا دارالحکومت قرطبہ تھا یورپ کی سب سے ترقی یافتہ سلطنت تھی۔
سلطان ابن العامر کے دور میں شروع ہوئی اور 14ویں صدی عیسوی میں سلطان یوسف سوم اور سلطان محمد پنجم کے عہد میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ باہر سے الحمرا کی دیواریں اور ستون سادہ مگر باوقار ہیں۔ اس کے تمام فن تعمیر کا حسن اور آرائش اندرونی حصوں میں نظر آتا ہے۔ دیواروں سے بنا اس کا احاطہ تین حصوں میں منقسم ہے۔ درمیان میں الحمرا پیلس ہے۔ جہاں سلطان اور اس کی بیگمات (ملکائیں)رہا کرتی تھیں۔ ان میں کھلے صحن ہیں۔الحمرا کے جیو میٹریکل ڈیزائن اسلامی فلسفے کی پوری طرح عکاسی کرتے ہیں جبکہ خطاطی کے ذریعے قرآنی آیات نقش ہیں،اپنے فن تعمیر کے خوبصورت تناسب کے علاوہ الحمرا کی آرائش بے مثال ہے۔
قصر الحمرا کے شان دار محل کی تعمیر کا کام اندلس کے آخری مسلمان حکمران بنی الحمرا نے شروع کیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد بھی قصر الحمرا کی تعمیر جاری رہی۔ محمد خامس الغنی نے الحمرا کی تعمیر اور آرائش میں سب سے زیادہ حصہ لیا۔ اس کے خوبصورت باغات میں دنیا بھر سے پودے منگوا کر لگائے گئے۔سلطانوں نے جنت کا نمونہ پیش کرنے کی کوشش کی۔ محل میں جابجا بالکونیاں بنائی گئیں جن سے پورے شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ اس محل کی تعمیر اپنی مثال آپ ہے اور اسلامک آرٹ کا بہترین نمونہ ہیں لیکن کسی حسین بیوہ کی اداس شام دکھائی دے رہا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں