لہروں کو پْرسکون کرنا…

عرفان اطہر قاضی
امن کے سامنے جب حکمت، دانش اورسیاسی سوجھ بوجھ ہتھیار ڈال دیں تو ہر طرف خوف طاری ہونے سے تباہی جنم لیتی ہے، گھروں کے گھر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں،شکوک وشبہات کی بنیاد پر انتشار کے ایسے حالات سے افراتفری پھیلتی ہے اور جب عقل پر پردہ پڑ جائے تو خوف کے ماحول سے دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ دانشور’’امن‘‘ کی اصطلاح کے جو معنیٰ اخذ کرتے ہیں اس سے مراد جنگ اور تشدد سے اپنی حفاظت اورآزادی حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے جبکہ امن کا دوسرا راستہ سکون کی حالت کو قرار دیا جاتا ہے جس میں فکر،مسائل، شورشرابہ یا ناپسندیدہ خلل سے پاک ماحول پنپتا ہے۔ لفظ ’’امن‘‘ کا چینی باشندوں کیلئے کیا مطلب ہے اورامریکی اس بارے میںکیا سوچ رکھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی مخالف سمت چل رہے ہیں، خاص طور پر عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ جو ذہنی سکون حاصل کرنے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں ان کی امن کیبارے میں رائے ذرا مختلف ہے۔ امن اور خوف پیچیدہ طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور انہیں کسی صورت الگ نہیں کیا جاسکتا۔ بہت زیادہ خوف اکثر امن کو خطرے میں ڈالتا اور تباہ کر دیتا ہے اور جنگیں بھڑکتی ہیں۔ دہشت گردی ان گروہوں کی خصوصیت ہے جو دہشت کا بیج بو کر خوف پیدا کرتے ہیں۔ وحشیانہ کارروائیوں کے ذریعے نفرت پھیلاتے اور اکثر بے گناہ شہریوں کا وحشیانہ اوردیوانہ وار قتل کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا گھناوٓنا عمل ہے جو عام آدمی کی فہم وفراست سے بالکل بالا تر ہے۔ امن و دہشت گردی کی نفسیاتی ساکھ میں خوف بہت اہم عنصر ہے۔ ریاست بظاہر دہشت گردوں سے کبھی خوف زدہ نظر نہیں آتی لیکن عوام دہشت گردی سے بہت زیادہ خوف زدہ رہتے ہیں اورذہنی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ یہ خوف بعض اوقات سیاست دانوں اور میڈیا کی طرف سے مسلسل مبالغہ آرائی ، فریقین کے رویوں کے نفسیاتی پس منظر میں پھیلائے گئے حالات سیمزید بڑھ جاتا ہے۔ جب خطرے سے نمٹنے کا فیصلہ عقل سے زیادہ جذبات سے متاثر ہو تا ہے تواعتماد کی کمی کی وجہ سے بے چینی تیزی سے پھیلنے لگتی ہے اورذاتی، سیاسی مفادات کے لئے خوف مزید بڑھتا چلا جاتا ہے۔ نتیجتاً سیاسی و معاشی اور امن وامان کی بگڑتی صورت حال ، بحران کی نوعیت ،خطرے کی حد اور کنٹرول کی صلاحیت کا جامع اور معروضی حل نکلتا نظر نہیں آتا، جس کے نتیجے میں ہونے والے فیصلے اور ان کے سماجی زندگی پر اثرات اضطراب کو انتہائی خوف میں بدل دیتے ہیں۔ غلط اسٹرٹیجک اہداف اندرونی امن حاصل نہیں کرسکتے جو بالآخر اسٹرٹیجک توجہ میں تبدیلی و کنٹرول کھونے کے خطرے کا باعث بنتے ہیں۔ اگرچہ غلط اسٹرٹیجک اہداف اکثر خطرے کی حساسیت کم تو کردیتے ہیں لیکن بے حسی کے خطرے کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ چینی باشندے ہمیشہ سال نو کے آغازپر آگے دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے ماضی کو بھول جاتے ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ایک وسیع تر ذہنیت کے ساتھ سکون تلاش کرسکیں۔ سونگ خاندان (1279-960 ) کی مشہور چینی ادبی شخصیت سوشی نے ایک یادگارنظم ’’لہروں کو پْرسکون کرنا‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے جسے چینی شہری نئے سال کی آمد پر مختصر ویڈیوز میں پڑھتے نظر آتے ہیں تاکہ ایک ایسی وسیع النظری کا اظہار کیا جاسکے جو زندگی کے اْتار چڑھاوٓسے بالاتر ہو۔ اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چینی عوام امن اورجنگ کے درمیانی حالات میں ’’فتح‘‘ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ جب ہم ماضی قریب میں چینی صوبے سنکیانگ میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کا ذکر کرتے ہیں تو وہاں غربت کے خاتمے کے پروگرام کے تحت امن قائم کیا گیا۔ مقامی لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرکے انتہا پسندانہ سوچ سے نجات دلائی گئی۔ مقامی،روایتی، ثقافتی سرگرمیوں، رقص، موسیقی، آرٹ کے فروغ سے اس خطے کو خوف کی حالت سے نکال کر امن کی شاہراہ پرڈال کر دنیا کے سامنے ایک زندہ مثال بنا دیا گیا۔ چینی اور امریکی پالیسی سازوں کی سوچ میں یہی فرق ہے کہ چین دنیا کی معیشتوں کو امن کا پیغام دیتا ہے تو امریکہ خوف زدہ ہو کراپنی ’’فتح‘‘ کی خاطر جنگوں پر جنگیں لڑتا ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کے سامنے دونوں راستے کھلے ہیں۔ حکمت و دانش اسی کو کہتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ خوف کی حالت میں سماجی، سیاسی، ثقافتی، ادبی سرگرمیوں پر پابندیاں لگانا، سیاست دانوں اور کارکنوں کی زباں بندی،نظر بندی ، منظر سے ہٹانے کی کوششیں بلوچستان سمیت پورے پاکستان کے مسائل کا حل نہیں۔ اختر مینگل ہوں یاعبدالمالک بلوچ، ماہ رنگ بلوچ ہوں یا مولانا ہدایت الرحمن، یہ سب ہمارے اپنے ہیں۔ ان کی آواز میں درد اور تکلیف ہے۔ خوف زدہ ہونے کی بجائے ان کے درد کو محسوس کیجئے، ان سے مکالمہ ضروری ہے۔ اگربلوچ عوام ان کی محبت میں گرفتار ہیں تو عوام کی آواز پر لبیک کہیں، انہیں کھلے میدانوں، منتخب ایوانوں میں دل کھول کر بولنے دیں۔ یہی لوگ بلوچستان کے مسائل کا حل تلاش کرکے دیں گے کوئی اور نہیں۔ بلوچستان، خیبرپختونخوا کی کمزور صوبائی حکومتیں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اپنا اقتدار بچائیں یا دہشت گردی کے خوف سے ریاست کے ساتھ کھڑی ہوں، دہشت گردوں سے ہراساں کمزور حکمران عوام کی حفاظت کرسکتے ہیں نہ ہی امن قائم کر سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں