اسلام آباد ہائیکورٹ کا عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنےکا فیصلہ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاتون جج کو دھمکیاں دینے سے متعلق توہین عدالت کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان پر فرد جرم عائد کرنےکا فیصلہ کیا ہے۔عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کی، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، ان کے وکیل حامد خان اور دیگر وکلا عدالت میں موجود تھے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو توہین عدالت کیس میں معافی کا موقع دیا لیکن عمران خان نے ایک بار پھر غیر مشروط معافی مانگنے سے گریز کرتے ہوئے دھمکی دینے کے اپنے الفاظ پر پچھتاوے کا اظہار کیا۔آج دوران سماعت چیف جسٹس اسلام ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دے سکتے، دوران سماعت عدالتی معاونین مخدوم علی خان اور منیر اے ملک نےعمران خان پرتوہین عدالت کاکیس ختم کرنے کی رائے دے دی۔عمران خان کے وکیل حامد خان نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ گزشتہ سماعت کی عدالتی آبزرویشن سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، عدالت کے سامنے مختصر گزارشات رکھنا چاہتا ہوں، ہم یہ معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں، عدالت نے ایک اور موقع دیا جس پر تفصیلی جواب داخل کرا دیا ہے، 21 اگست کی عدالتی آبزرویشن پر تفصیلی جواب داخل کیا۔حامد خان کا کہنا تھا عدالت نے سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کا حوالہ دیا، یہ دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے عدالتی فیصلے تھے لیکن عمران خان کا کیس ان دو عدالتی فیصلوں کے تحت نہیں آتا، طلال چوہدری اور دانیال عزیز کیسز عمران خان کیس سے بہت مختلف ہیں۔
کرمنل توہین بہت حساس معاملہ ہے، اس میں آپ کوئی توجیہہ پیش نہیں کر سکتے: چیف جسٹس
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ توہین عدالت تین طرح کی ہوتی ہے جسے فردوس عاشق اعوان کیس میں بیان کیا گیا، ایک جوڈیشل توہین عدالت اور ایک فوجداری توہین عدالت، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے خلاف کرمنل توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی، ان کے خلاف عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا، ان تین عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینے کا مقصد تھا، ایک سول توہین عدالت ہے۔ان کا کہنا تھا عدالت کی اسیکنڈلائزیشن فردوس عاشق اعوان سے متعلق ہے، یہ کرمنل توہین عدالت ہے جو زیر التوا مقدمے سے متعلق ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا جواب تفصیلی پڑھا، فیصلے میں حوالہ توہین عدالت کی اقسام میں فرق سے متعلق دیا گیا، سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہم پابند ہیں، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کا مسرور احسن بنام اردشیر کاوس جی کیس دیکھیں، مسرور احسن بنام اردشیر کاوس جی کیس کا پیرا گراف نمبر 96 پڑھیں۔پہلے بھی کہا تھا عدلیہ کی آزادی اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے: چیف جسٹس کا عمران خان کے وکیل سے مکالمہ
عمران خان کے وکیل حامد خان نے عدالت کے کہنے پر توہین عدالت کیس کا ایک فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ معافی کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا عدالت کے اطمینان پر منحصر ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ کرمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، کرمنل توہین میں آپ کوئی توجیہہ پیش نہیں کر سکتے، ہم اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔جسٹس اطہر من اللہ نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اب سپریم کورٹ کا شاہد اورکزئی کیس کا فیصلہ پڑھیں، اب تو ہین عدالت قانون کا سیکشن 9 پڑھیں۔ان کا کہنا تھا اتنی پولارائزڈ سوسائٹی ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بےعزت کرتے ہیں، اگر اس خاتون جج کے ساتھ بھی ایسا ہو جائے تو پھر کیا ہو گا؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ماتحت عدلیہ اس عدالت کی ریڈلائن ہے، ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ عدلیہ کی آزادی اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے، آپ نے اپنے جواب میں جسٹیفائی کرنے کی کوشش کی۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹیفائی نہیں، وضاحت کرنے کی کوشش کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سابق وزیراعظم لاعلمی کا عذر پیش کر سکتے ہیں؟ جرم انتہائی سنگین ہے جس کا احساس نہیں ہوا، ہم نے صرف قانون کو دیکھنا ہے۔حامد خان کا کہنا تھا ہمیں احساس ہے اس لیے جواب میں وہ باتیں لکھی ہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا آپ خود ہی بتائیں کہ کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق درست ہے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ ضلعی اور اعلیٰ عدلیہ کا احترام کرتا ہوں، عمران خان نے کہا کہ شہبازگل پر تشدد کی وجہ سے بیان دیا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ نے جواب میں مبینہ تشدد کا لفظ نہیں لکھا، کیا یہ فیصلے جلسوں میں ہوں گے یا عدالتیں کریں گی؟ عدالت کے گزشتہ آرڈر کے بعد بھی یہ جواب فائل کیا گیا، کیا آپ اس کیس کو لڑنا چاہتے ہیں؟
عدلیہ کے ججز کی عزت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ جج جیسی ہے: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد کا کہنا تھا کہ 70 سال میں کچھ اچھا نہیں ہوا، یہ عدالت اس بات سے بہت آگاہ ہے، آپ اپنے عمل کو جسٹیفائی کرنا چاہتے تو آپ کی مرضی، کیا اگر سپریم کورٹ کے جج کے بارے یہ الفاظ ہوتے تو یہ جواب ہوتا؟ ضلعی عدلیہ کے ججز کی عزت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ جج جیسی ہے۔جس پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ مجھے جواب کا پورا پیرا گراف پڑھنے دیں، اگر کسی جج کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو رنجیدہ ہوں۔جس پر چیف جسٹس اسلام آباد اطہرمن اللہ نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر باور کرانے کی کوشش کی کہ اس عدالت میں سب کو عزت دی جاتی ہے اور دی جاتی رہے گی کسی جج کے جذبات نہیں ہوتے، جج کے بارے میں اشتعال انگیزی پھیلائی گئی، وہ جج کہیں جار ہی ہوں تو ان کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آسکتا ہے، عدالت نے آپ کو طریقے سے سمجھا دیا ہے۔عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ وہ عدلیہ اور خواتین کا احترام کرتے ہیں، عدالت کویقین دلاتے ہیں عمران اور ان کے سپورٹرز خاتون جج سے متعلق کچھ نہیں کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں