لاہور: (آواز نیوز) 5 نومبر 2024 امریکا میں ہونیوالے صدارتی انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں ، ان انتخابات میں سات ایسی ریاستیں بھی ہیں جہاں امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے اور ان کے انتخابی نتائج پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔رواں برس امریکہ کے صدارتی انتخاب میں تقریباً 24 کروڑ لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے لیکن ملک کا اگلا صدر کون بنے گا ؟ اس کا فیصلہ کرنیوالے لوگوں کی تعداد کافی کم ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ میں چند ریاستیں ایسی ہیں جہاں انتخاب میں ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے اور یہی ریاستیں فیصلہ کریں گی ملک کا اگلا صدر کون ہو گا۔ایری زونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، شمالی کیرولینا، پینسلوینیا اور وسکونسن وہ سات ریاستیں ہیں جن کو ’سوئنگ سٹیٹس‘ کہا جاتا ہے اور انہی کے پاس وائٹ ہاؤس کی کنجیاں ہیں۔یہ دونوں جماعتیں اس وقت ان ریاستوں میں ایسے غیرفیصلہ کن ووٹرز پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جن کا ووٹ ان کیلئے فیصلے تبدیل کرواسکتاہے ۔
ایری زونا
7.4 ملین آبادی پر مشتمل ایری زونا جہاں ڈیموکریٹس 2020 میں اس ریاست کی حمایت سے صدارت حاصل کرسکی ، اس ریاست نے 1990 کی دہائی کے بعد پہلی بار ڈیموکریٹس کے امیدوار کی حمایت میں ووٹ دیا۔ایری زونا کی سینکڑوں میل لمبی سرحد میکسیکو سے ملتی ہے اور یہ ریاست ملک میں امیگریشن پر جاری بحث کا ایک مرکزی نکتہ بن چکی ہے۔حالیہ مہینوں میں سرحد پار کرنے کے واقعات میں کمی آئی اور یہ مسئلہ ان معاملات میں سرفہرست ہے جس پر ووٹرز تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔سابق صدر ٹرمپ نے بارہا امیگریشن سے متعلق کملا ہیرس کی کارکردگی کو نشانہ بنایا ہے، کیونکہ انھیں صدر بائیڈن نے سرحدی بحران کو کم کرنے کی کوششوں کیلئے ذمہ داری سونپی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ اس عزم کا اعادہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر وہ دوبارہ صدر بن جاتے ہیں تو وہ امریکی تاریخ میں ملک بدری کا سب سے بڑا آپریشن کریں گے۔علاوہ ازیں ایری زونا میں اسقاط حمل تک رسائی کے معاملے پر بھی تنازعہ سامنے آ چکا ہے، جب ریپبلکنز نے اسقاطِ حمل پر 160 برس پہلے لگائے جانے والی تقریباً مکمل پابندی کے دوبارہ نفاذ کی ناکام کوشش کی۔یہ معاملہ 2022 کے بعد سے مزید تقسیم کا باعث بنا جب امریکی سپریم کورٹ نے اس تاریخی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس نے خواتین کو اسقاط حمل کا آئینی حق دیا تھا۔
جارجیا
11 ملین آبادی پر مشتمل ریاست جارجیا ، جہاں 2020 میں بائیڈن نے 13ہزار ووٹوں سے کامیابی اپنے نام کی ۔اس ریاست میں ٹرمپ کے حمایت یافتہ ریپبلکن عہدیداروں نے بائیڈن کی جیت کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی تاہم وہ کامیاب نہ ہوسکے۔جارجیا کی فلٹن کاؤنٹی میں، مبینہ انتخابی مداخلت کا الزام ہے ،( ٹرمپ کو ان کے چار مجرمانہ مقدمات میں سے ایک مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے، جبکہ باقی جاری ہیں) ، ان پر اور دیگر افراد پر ریاست میں بائیڈن کے ہاتھوں شکست کے نتائج کو بدلنے کی سازش کا الزام ہے۔ٹرمپ کی جانب سے کسی بھی غلط کام کی تردید کی گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ الیکشن سے قبل عدالت میں اس کیس کی سماعت کا زیادہ امکان نہیں ہے۔جارجیا کی آبادی کا ایک تہائی حصہ افریقی نژاد امریکی ہے، جو ملک کے سیاہ فام باشندوں کے سب سے بڑے تناسب میں سے ایک ہے، اور خیال کیا جاتا ہے کہ 2020 میں بائیڈن کی اس ریاست میں کامیابی میں اس آبادی کا اہم کردار تھا۔اگرچہ امریکی سیاہ فام ووٹروں میں جو بائیڈن کے حوالے سے مایوسی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں، لیکن کملا ہیرس اس حلقے میں ایک بار پھر بھرپور کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔
مشی گن
گذشتہ دو صدارتی انتخابات میں یہ ریاست امیدواروں کیلئے کافی خوش قسمت ثابت ہوئی کیونکہ جو امیدوار اس ریاست میں کامیاب ہوا ،اسی کیلئے وائٹ ہاؤس کے دروازے کھلے۔غزہ کی جنگ کے دوران اسرائیل کیلئے امریکی صدر کی حمایت پر ملکی سطح پر ردعمل دیکھنے میں آیاہے باوجود اس کے کہ جو بائیڈن کو اس ریاست میں بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔فروری میں مشی گن کے ڈیموکریٹک پرائمری مقابلے کے دوران، ایک لاکھ سے زیادہ ووٹرز نے اپنے بیلٹ پیپر پر ’ان کمٹڈ‘ آپشن کا انتخاب کیا، جو اس مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد امریکی حکومت کی اسرائیل کے لیے فوجی امداد رکوانا ہے۔10 ملین آبادی پر مشتمل مشی گن میں عرب نژاد امریکیوں کی آبادی کا تناسب ملک میں سب سے زیادہ ہے اور ان کی جانب سے غزہ کے معاملے میں بائیڈن کی اسرائیلی حمایت خطرے میں نظر آ رہی تھی لیکن کملا ہیریس نے اسرائیل پر سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔دوسری جانب ٹرمپ نے جیت کے اپنے ممکنہ راستے میں ریاست کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں حماس کے خلاف اپنی مہم کا خاتمہ کرے ۔
نیواڈا
اس ریاست نے گذشتہ کئی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کو ووٹ دیا ہے ، لیکن اس بار یہاں ووٹرز کا رجحان ری پبلکنز کی طرف زیادہ نظر آتا ہے۔پول ٹریکنگ فرم 538 کی شائع کردہ حالیہ اوسط سے پتہ چلتا ہے کہ انتخابی سروے میں جہاں ایک وقت میں ٹرمپ کو بائیڈن پر واضح برتری حاصل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا وہیں کملا ہیرس کے میدان میں آنے سے اس فرق میں نمایاں کمی آئی ہے ۔دونوں امیدوار ریاست کی قابل ذکر لاطینی آبادی کا اعتماد جیتنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں ، قطع نظر اس سے کہ جو بائیڈن کے صدارت سنبھالنے کے بعد سے امریکی معیشت میں ٹھوس ترقی اور نئی ملازمتوں کے مواقع بنے ، یہاں کوویڈ کی وبا کے بعد بحالی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں سست رہی ہے۔امریکی حکومت کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق، کیلیفورنیا اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے بعد اس ریاست میں بےروزگاری کی شرح سب سے زیادہ یعنی 5.1 فیصد ہے۔اگر ٹرمپ دوبارہ برسرِ اقتدار آتے ہیں، تو انھوں نے سب کے لیے کم ٹیکس اور کم ضوابط کے ایجنڈے کی بحالی کے عزم کا اظہار کیا ہے۔3.2 ملین آبادی پر مشتمل یہ ریاست کم از کم 190,000 غیر قانونی غیر ملکیوں کا گھر ہے، اگرچہ گزشتہ 3 سالوں میں یہاں کتنے غیرملکیوں نے پناہ لی اس کا ڈیٹا واضح نہیں ۔
شمالی کیرولینا
جارجیا اور شمالی کیرولینا میں اس وقت امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے خاص طور پر کملا ہیرس کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی کے بعد کچھ تجزیہ کار اب اسے ’ٹاس اپ‘ سمجھ رہے ہیں۔10.8 ملین آبادی پر مشتمل اس ریاست میں ٹرمپ کو پہلے ہی حمایت حاصل ہے ، ٹرمپ شمالی کیرولینا سے دو مرتبہ کامیابی حاصل کرچکے ہیں ۔انہوں نے سال 2020 میں 70ہزار ووٹوں سے بائیڈن اور 2016 میں ری پبلکن امیدار ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی، اور یہی وجہ ہے کہ ڈیموکریٹس کو اپنا پلہ یہاں بھاری نظرآتاہے ۔اسی ریاست میں ماہ جولائی میں ٹرمپ پر صدارتی انتخابی مہم کے دوران قاتلانہ حملہ کیا گیا ، پہلی آؤٹ ڈور ریلی کے لیے اس ریاست کا انتخاب ٹرمپ کی مقبولیت میں مزید اضافے کا باعث بنی ، ایک انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے ایک خطاب میں کہا کہ ’یہ ریاست جیت کے لیے ایک بہت بڑی ریاست ہے۔‘اس ریاست کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں خواتین کا ووٹ بینک سب سے زیادہ ہے اور 51 فیصد خواتین رواں برس ووٹ کاسٹ کرینگی۔
پنسلیوینیا
2020 میں ری پبلکنز امیدوار جو بائیڈن اس ریاست سے کامیابی حاصل کرچکے ہیں اور اس بار ڈیموکریٹس بھی کیسٹون ریاست میں بھرپور انداز میں مہم چلا رہے ہیں۔ٹرمپ اور کملا ہیرس امریکا میں کسی بھی ریاست سے زیادہ اس جگہ کا نہ صرف دورہ کرچکے ہیں بلکہ سب سے زیادہ انویسٹمنٹ اورتوانائیاں خرچ کررہے ہیں ۔ 2020 کے انتخابات میں یہ ریاست بائیڈن کیلئے اہم ثابت ہوئی کیونکہ یہ ان کا آبائی علاقہ تھا وہ سکرینٹن میں پلے بڑھے اور اکثر اس کے محنت کش طبقے کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔13 ملین نفوس پر مشتمل اس ریاست میں دیگر ریاستوں کی طرح معیشت سب سے اہم مسئلہ ہے، بائیڈن کے دور میں مہنگائی میں بتدریج کمی سے قبل اضافہ ریکارڈ کیا گیا، پینسلوینیا کے شہر ایری میں لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ، یہی نہیں بلکہ شہری غذائی بحران کا بھی شکار ہیں ۔اس ریاست کی معاشی حالت پر ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور کملا ہیرس بھی تنقید کی زد میں نظر آتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کے ووٹرز کملا کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں ۔حالیہ مہم میں کملا ہیرس فلاڈیلفیا اور پِٹسبرگ کے شہری مراکز میں بڑی کامیابی حاصل کرنے کے خواہاں ہیں اور اس کیلئے انہوں نے خواتین، سیاہ فام ووٹرز، اور کالج کے فارغ التحصیل افراد پر توجہ مرکوز کی ہے جن کا ووٹ چار سال قبل بائیڈن کی کامیابی کی وجہ بنے تھے ۔دوسری طرف، ڈونلڈ ٹرمپ دیہی کاؤنٹیز میں ریپبلکن حمایت کو بڑھانے کی امید رکھتے ہیں بالکل ویسے ہی جس طرح انہوں نے 2020 میں وائٹ کالرز اور لاطینی آبادی کو قائل کیا تھا۔
وسکونسن
’بیجر سٹیٹ‘ کہلائی جانے والی ریاست وسکونسن نے 2016 اور 2020 میں جس شخص کو منتخب کیا وہ امریکا کا صدر بنا اگرچہ یہاں کانٹے کا مقابلہ رہا اور جیتنے والے امیدوار کو صرف 20 ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ ملے۔مبصرین کا خیال ہے کہ یہاں کسی تیسرے امیدوار کی موجودگی معنی خیز ہوسکتی ہے یعنی ایسا امیدوار جو ٹرمپ اور ہیرس دونوں کی پالیسیوں کا ناقد ہواور وہ کوئی اور نہیں آزاد امیدوار رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر ہوسکتے ہیں ۔مختلف سروے آزاد امیدوار رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کی خاطر خوا حمایت کا اشارہ دیتے نظر آتے ہیں اور ان کی موجودگی ہیرس یا ٹرمپ کے ووٹ بینک پر اثر ڈال سکتی ہے ۔خیال رہے کہ کینیڈی اگست کے اواخر میں اپنی مہم ختم کر کے ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں۔ریاست میں ڈیموکریٹس گرین پارٹی کی امیدوار جِل سٹین کو میدان سے ہٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کیونکہ ان کاماننا ہے کہ اس جماعت نے ریاست میں انتخابی قوانین کی پیروی نہیں کی۔ٹرمپ اس ریاست کو ’بہت اہم‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر ہم وسکونسن سے جیتے تو پورا الیکشن جیت جائیں گے۔ان سات ریاستوں میں کملا ہیرس اور ٹرمپ کی توجہ مشی گن ، وسکونسن اور پنسلیونیا پر مرکوز ہیں جن کے نتائج سے بائیڈن گزشتہ انتخابات میں ٹرمپ کو شکست دے پائے تھے۔