ماسکو : (ویب ڈیسک ) 16 واں برکس سربراہی اجلاس روس کے نیم خود مختارعلاقے تاتارستان میں آج سے شروع ہورہا ہے جس میں رکن ممالک کے علاوہ 32 ممالک کے وفود شرکت کریں گے۔قازن شہر میں منعقدہ اجلاس کا عنوان عالمی سطح پر مساوی ترقی اور سکیورٹی مضبوط بنانا قرار دیا گیا ہے، برکس اجلاس کا پہلا دور آج اورکل ہوگا ، اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی شریک ہوں گے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی برکس کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔برکس کے اجلاس میں ایران کے ساتھ سٹریٹجک شراکت داری کے اہم معاہدے پر دستخط ہوں گے جبکہ سعودی عرب کے اسٹیٹس کو بھی واضح کیا جائےگا۔اجلاس کے دوسرے دور میں 38 ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے جن میں سے 32 ممالک کی جانب سے وفود بھیجنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔برازیل، روس، بھارت ، چین اور ساؤتھ افریقا (برکس) پر مشتمل اس تنظیم میں مصر، متحدہ عرب امارات، ایران، ایتھوپیا بھی شامل ہوچکے ہیں۔ترکی، آذربائیجان، الجزائر، ملائیشیا، شام، بیلا روس، تھائی لینڈ، پاکستان سمیت تین درجن ممالک اس تنظیم کا رکن بننے کی خواہش کااظہارکر چکے ہیں جبکہ کئی باضابطہ درخواست بھی جمع کرواچکے ہیں۔
یہ گروپ کتنی اہمیت کا حامل ہے؟
ساڑھے تین ارب افراد پر مشتمل مجموعی آبادی کے برکس ممالک نے حالیہ برسوں میں عالمی سیاسی اور معاشی منظر نامے پر اہمیت حاصل کرلی ہے ، ان ممالک کا عالمی معیشت میں حصہ 28 فیصد ہے، جبکہ ان کی معیشت 28.5 کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔عالمی بینک کے مطابق چین معاشی اعتبار سے برکس ممالک کا سب سے بڑا رکن ہے، جس کی معیشت 17.96 کھرب ڈالرز ہے، جب کہ انڈیا اس سلسلے میں 3.39 کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ دوسرا بڑا رکن ہے۔
معیشت کے حجم کے اعتبار سے روس برکس کا تیسرا بڑا ملک ہے، جس کی معیشت 2.24 کھرب ڈالرز ہے، جب کہ 1.92 کھرب ڈالر کی معیشتوں کے ساتھ برازیل اور سعودی عرب چوتھے نمبر پر ہیں۔ایک امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے مطابق برکس ممالک کے پاس اقوام متحدہ کے مرکزی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) میں ووٹنگ کے حقوق کا صرف 15 فیصد ہے۔
برکس گروپ کیا ہے؟
میں برازیل، روس، انڈیا اور چین نے ترقی پذیر ممالک کی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس کا مخفف ’برک‘ تھا، سنہ 2010 میں جنوبی افریقہ اس اتحاد میں شامل ہوا، تو یہ نام ’برکس‘ ہو گیا۔
اس تنظیم کا مقصد دنیا کے سب سے اہم ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور ترقی یافتہ مغربی ممالک کی سیاسی اور معاشی طاقت کو چیلنج کرنا تھا۔سنہ 2014 میں برکس ممالک نے 250 ارب ڈالر کے فنڈز کے ساتھ نیو ڈیولپمنٹ بینک (این بی ڈی) قائم کیا تاکہ ابھرتی ہوئی اقوام کو ترقی کے لیے قرض دیا جا سکے۔