سیاسی جماعت کی سینیٹ نشستیں صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے مطابق ہونی چاہئیں، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتحابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ عدالت میں پیش ہوئے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے تیار جواب جمع کروایا ہے کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 کا اطلاق ہوتا ہے جبکہ آرٹیکل 218 کے تحت شفاف الیکشن کرانا ذمہ داری ہے، آرٹیکل 218 کی تشریح سے 226 کو ڈی فیوز نہیں کیا جا سکتا اور آرٹیکل 226 کی سیکریسی کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ووٹوں کو خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے، کاسٹ کیے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا، قیامت تک ووٹ خفیہ رہنا آئین میں ہے نہ عدالتی فیصلوں میں، متناسب نمائندگی کا کیا مطلب ہے؟ سیاسی جماعت کی سینیٹ میں نشستیں صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے مطابق ہونی چاہئیں، قومی اسمبلی کی ووٹنگ میں آزادانہ ووٹ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، سینیٹ انتخابات کے لیے قانون میں آزادانہ ووٹنگ کا لفظ شامل نہیں، الیکشن کمیشن متناسب نمائندگی کو کیسے یقینی بنائے گا، جس جماعت کی سینیٹ میں جتنی نشستیں بنتی ہیں اتنی ملنی چاہئیں، کسی جماعت کو کم نشستیں ملیں تو ذمہ دار الیکشن کمیشن ہوگا، صوبائی اسمبلی کے تناسب سے سینیٹ سیٹیں نہ ملیں تو یہ الیکشن کمیشن کی ناکامی ہوگی، ووٹ فروخت کرنے سے متناسب نمائندگی کے اصول کی دھجیاں اڑیں گی، کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کر سیٹیں جیت لے تو سسٹم تباہ ہو جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی جماعت تناسب سے زیادہ سینیٹ سیٹیں لے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا، الیکشن کمیشن کیسے تعین کرتا ہے کہ انتخابات متناسب نمائندگی سے ہوئے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے نہیں روک سکتے، آزادنہ ووٹ نہ دیا تو سینیٹ انتخابات الیکشن نہیں سلیکشن ہوں گے، ووٹ دیکھنے کے لیے آرٹیکل 226 میں ترمیم کرنا ہوں گی، ووٹ تاقیامت ہی خفیہ رہتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے وکیل کو کل عدالت میں ہونا چاہیے کیس کسی بھی وقت ختم ہو جائے گا، پاکستان بار کو صرف عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی پر سنیں گے، پاکستان بار کونسل کی کوئی سیاسی بات نہیں سنی جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں