سینیٹ ووٹ کو خفیہ رکھ کر جرم کی حوصلہ افزائی کرنے والی بات ہے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ کیا انتخابات 2021 کے لیے کوئی ہدایت نامہ تیار ہوا؟۔سیکرٹری الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ حالیہ سینیٹ انتخابات کے لیے ہدایت نامہ ابھی جاری کرنا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے دلائل میں کہا کہ ہدایت نامہ میں متناسب نمائندگی اور خفیہ ووٹنگ کا ذکر ہے، آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم، وزرائے اعلی کے علاوہ ہر الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہو گا، ووٹ ڈالنے کا عمل خفیہ نہیں ہونا چاہیے، موجودہ حالات میں شخصیات کو نہیں اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا، اراکین اسمبلی کو سیاسی جماعتیں لیکر آتی ہیں جنہیں مزید مضبوط کرنا ہو گا، بلواسطہ انتخابات میں اراکین پارٹی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں، ماضی میں بھی غیر قانونی طریقے سے مینڈیٹ چوری ہوا، آصف زرداری نے اب بھی کہا کہ تمام دس نشستیں جیتیں گے، ان کا بیان سیاسی ہے لیکن مینڈیٹ کے برعکس ہے، الیکشن کمیشن کا کام کرپشن ہونے سے پہلے روکنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا اطلاق سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوتا، آئین کا آرٹیکل 59 سینیٹ کے حوالے سے ہے جس میں خفیہ ووٹنگ کا کوئی ذکر نہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر کوئی سزا نہیں، جس پارٹی کے خلاف ووٹ دینا ہے کھل کر دے، سزا صرف ووٹوں کی خریدوفروخت پر ہو سکتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 59 اور 226 کو ملا کر پڑھنا ہوگا، خفیہ رائے شماری میں متناسب نمائندگی نہ ہوئی تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ متناسب نمائندگی سینیٹ میں صوبوں کی ہوتی ہے کسی جماعت کی نہیں، ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال ہی غیر مناسب ہے، ہارس ٹریڈنگ کا سب نے سنا ہے کسی کے پاس شواہد نہیں، اخباری خبروں اور ویڈیوز تک ہی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے، عدالت کو سیاسی سوالات سے دور رہنا چاہیے۔چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا کہ آئین بذات خود بھی ایک سیاسی دستاویز ہے، آئینی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کر رہی ہوتی ہے، کیا الیکشن رزلٹ کے بعد ووٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ گنتی کے وقت ووٹ کو دیکھا جاتا ہے، تاہم ووٹ ڈالنے والے کا علم نہیں ہوتا، آئین ووٹ ڈالنے والے کی شناحت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا، کیا اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہو جائے گی؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہو گی یا نہیں کچھ نہیں کہہ سکتے، پیسہ چلنے کے شواہد سامنے آئیں تو الیکشن کمیشن کارروائی کرے گا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارٹی لائن کے خلاف ووٹ سامنے آنے پر الیکشن کمیشن تحقیقات کر سکے گا، پیسے کا لین دین نہ ہوا تو بات ہی ختم ہو جائے گی، انتخابی عمل میں کرپشن پر استثنی نہیں مل سکتا، الیکشن کمیشن کو پہلے اطمینان کرنا ہے الیکشن میں گڑ بڑ ہوئی ہے۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس بیلٹ پیپرز سے اچھا ثبوت کوئی نہیں ہو سکتا، سب سے پکا ثبوت ہی کمیشن کے پاس نہ ہو تو کیا کارروائی ہوگی۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ کیا ووٹر کی شناخت ظاہر ہونا کرپشن کا ثبوت ہے؟، عدالت کو پارٹی ڈسپلن کو تحفظ دینے کا کہا جارہا ہے، رشوت اور ووٹوں کی خریدوفروخت الیکشن ایکٹ کے تحت جرم ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو کہہ رہے ہیں ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہی نہیں، حالانکہ پارلیمان میں قراردادیں منظور ہوتی رہیں کہ ہارس ٹریڈنگ ختم ہونی چاہیے، اٹارنی جنرل نے قراردادیں بھی عدالت کو دے دی ہیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت میں ہارس ٹریڈنگ کو تسلیم کیا ہے، آپ کو بطور نمائندہ سندھ حکومت سن رہے ہیُں پیپلز پارٹی کے وکیل کے طور پر نہیں۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ بادی النظر میں کوئی ثبوت ہو تو ووٹوں کا جائزہ لینے کا اختیار ہونا چاہیے، ووٹ کا جائزہ لیے بغیر جرم کیسے ثابت ہو گا؟۔
سلمان طالب الدین نے کہا کہ صرف ووٹ دیکھنے سے بھی تو جرم ثابت نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صرف رقم کی ادائیگی مسئلہ نہیں وہ کسی بھی مد میں ہوسکتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹ کو خفیہ رکھ کر جرم کی حوصلہ افزائی کرنے والی بات ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا مخصوص نشستوں پر ہونے والا الیکشن آئین کے تحت ہوتا ہے؟، خفیہ رائے شماری کا اطلاق مخصوص نشستوں پر کیوں نہیں ہوتا؟۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ الیکشن آئین کے تحت ہی ہوتا ہے، لیکن مخصوص نشستوں پر طریقہ کار مختلف ہے، مخصوص نشستوں پر خفیہ ووٹنگ نہیں ہوتی بلکہ سیاسی جماعتیں نامزدگیاں کرتی ہیں، آرٹیکل 226 کا اطلاق وہاں ہوتا ہے جہاں ووٹنگ ہو، لیکن اس آرٹیکل کی ایسی تشریح نہیں کی جاسکتی کہ آئین میں ترمیم کا تاثر ملے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں