امریکہ میں ہونیوالے انتخابات امریکی تاریخ کے پرجوش انتخابات تھے۔ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد ایک گھمسان کا رَن تھا۔ دونوں صدارتی امیدوار جوش اور جنون سے سرشار تھے۔ دونوں پارٹیوں کے حمایتی ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ ہر سُو نفرت کا ایک الائو تھا‘ کبھی کبھی ایسا بھی لگا جیسے پاکستانی سیاست کی روایت یہاں بھی پہنچ گئی ہے۔ جب سے امریکہ بنا ہے‘ تب سے لیکر یہاں پر ایک رواج ہے کہ الیکشن رزلٹ کے فوری بعد جیتنے والا اپنی جیت کا اعلان کرنے کیلئے تقریر کرتا ہے اور پھر اسکے چند منٹ بعد ہی ہارنے والا امیدوار جیتے والے امیدوار کو مبارکباد دیتا ہے‘ لیکن اس بار صدیوں سے رائج اس رسم کا اعادہ نہیں ہوسکا۔ ساری دنیا کی نظریں امریکہ پر اٹکی ہوئی تھیں۔ جتنے منہ تھے‘ اتنی ہی باتیں تھیں‘ لیکن جوبائیڈن نے ایک تقریر سے ماحول کی گرمی ختم کردی ہے۔ انہوں نے کیا خوب کہا‘ ڈیموکریٹ اور ریپبلکن ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن آپس میں دشمن نہیں ہیں۔ میں اب ڈیموکریٹ نہیں بلکہ امریکہ کا صدر ہوں۔ آئو اتحاد‘ محبت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران جو زخم لگے ہیں‘ انہیں مندمل کرتے ہیں‘ ٹرمپ نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب میں بھی شامل نہیں ہوا لیکن پھر بھی جوبائیڈن نے اسکے خلاف زہر نہیں اُگلا۔ نئے صدر نے آتے ہی اپنے کئے گئے کئی وعدوں کی تکمیل بھی کردی ہے۔ عوامی فلاح و بہبود اور اپنے منشور کے بہت سے آرڈیننس بھی جاری کردئیے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران پیدا ہونے والی گرمی اور تپش ختم ہوگئی ہے۔ وہ جو نفرت کا الائو تھا اسے بجھا دیا گیا ہے۔ یہ ہوتے ہیں لیڈر‘ یہ ہوتی ہیں قومیں۔ یہ قصہ تھا ایک ترقی یافتہ ملک کا‘ یہ ایک کہانی تھی ایک حقیقی لیڈر کی‘ کوئی بھی ملک یا پھر کوئی بھی قوم‘ گرداب میں پھنس سکتی ہے‘ لیکن پھر وہ ان حالات سے باہر بھی نکلتے ہیں۔
اب آتے ہیں ملک خداداد پاکستان کی طرف… آج ہم عجب سے حالات کا شکار ہوگئے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی مخالف نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ موجودہ حکومت کو کامیاب ہونے کے بعد اپنے وعدوں کی تکمیل کرنی تھی‘ لیکن ارباب اختیار ابھی تک اپنی الیکشن مہم میں لگے ہوئے ہیں۔ بس غصہ ہی غصہ ہے‘ ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے کہ عوام بھی ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے ہیں:
دلیل تھی نہ کوئی حوالہ تھا ان کے پاس
عجب لوگ تھے بس اختلاف رکھتے تھے
طارق عزیز نے کیا خوب کہا تھا… ’’جس سیاسی لیڈر کے گھر گھس نہیں سکتے اسی لیڈر کی خاطر ہم اس دوست کو ناراض کرلیتے ہیں جو ہمیں اپنے گھر میں بٹھا کر چائے پلاتا ہے‘‘… ہر سُو نفرت کا ایک دہکتا ہوا الائو ہے جس کی تپش سے ہمارے دماغ مائوف ہوگئے ہیں۔ ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوگئے ہیں‘ ہم ہر وقت غصہ میں رہتے ہیں‘ ہم ایک دوسرے کو چور‘ ڈاکو‘ لٹیرا اور غدار کہتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کیلئے جو میدانوں میں لڑائی لڑی گئی تھی‘ وہ گھروں تک پہنچ گئی ہے۔ حال ہی میں ماموں کانجن میں ایک واقعہ رونما ہوا ہے‘ دو افراد نے آپس میں رشتہ طے کیا‘ پھر وہ دن بھی آپہنچا جب لڑکی اور لڑکے والے منگنی کی رسم ادا کررہے تھے۔ دونوں گھروں کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا‘ آپس میں گفتگو کے دوران لڑکے کے والد نے عمران خان کی تعریف کردی۔ یہ بات لڑکی کے والد کی سماعتوں سے ٹکرائی ہی تھی کہ اس نے رشتے سے انکار کردیا۔ پہلے پہل لیڈروں کے درمیان ہلکی پھلکی نوک جھونک ہوتی تھی لیکن اب کے ایسی ہوائیں چلی ہیں کہ ہر طرف نفرت ہی نفرت ہے۔ ہر پارٹی نے گالم گلوچ بریگیڈ تیار کررکھی ہے جو سوشل میڈیا پر بیٹھ کر ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہتے ہیں:
ہم کہاں کے دانا تھے‘ کس ہُنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب… دشمن آسمان اپنا
یہ سارا کیا دھرا ہمارے لیڈروں کا ہے‘ اپوزیشن سے کیا گلہ‘ انکا تو کام ہی دھماچوکڑی ہوتا ہے۔ یہ ازل سے ہوتا آیا ہے‘ اپوزیشن تو کھلنڈرے بچے کی طرح ہوت یہے لیکن یہ جو وزیراعظم ہوتا ہے وہ گھر کے سربراہ کی طرح ہوتا ہے۔ وہ مملکت چلانے کیلئے معاملات کو سنبھالتا ہے‘ ہم نے اپنی آنکھوں سے پہلی بار دیکھا ہے کہ سربراہ مملکت خود ٹی وی پر آکر جلتی پر تیل چھڑکتا ہے‘ وہ اپوزیشن کو چھیڑتا ہے‘ وہ اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہتا ہے کہ میں تم سے نپٹ لوں گا۔
پہلے وقتوں میں یہ ہوتا تھا کہ کارکردگی نہ ہونے پر وزراء سے استعفیٰ لے لیا جاتا تھا لیکن اب کارکردگی میرٹ نہیں رہی‘ جو کم گالیاں نکالتا ہے اسے وزارت سے ہاتھ دھونے پڑ جاتے ہیں۔ دنیا میں صرف کارکردگی کی بنیاد پر لوگ سامنے آتے ہیں لیکن یہاں اوپر وہ آتا ہے جو گالیاں دینے میں سب سے زیادہ ماہر ہو۔ ندیم افضل چن نے ہزارہ میں قتل ہونیوالے اپنے ہم وطنوں کیلئے ایک ٹویٹ کی تھی… ’’اے بے یارومددگار معصوم مزدوروں کی لاشو‘ میں شرمندہ ہوں‘‘… بس اتنی سی بات پر ایک قیامت صغریٰ بپا کردی گئی‘ ندیم افضل چن کو استعفیٰ دینا پڑ گیا۔ حقیقت یہ تھی کہ آپ کبھی کبھی ضمیر کے مطابق شائستہ لہجہ بھی اختیار کرجاتے تھے۔ آپ پارٹی پالیسی کے مطابق اپوزیشن کو لتاڑتے تھے لیکن وزیراعظم کا مطالبہ تھا کہ گالیوں کی مقدار بڑھا دی جائے‘ لیکن اس سے زیادہ گالیاں نکالنا ’’چن‘‘ کے بس کا روگ نہیں تھا۔ بس اسی بات پر استعفیٰ دینا پڑ گیا‘ مجھے اس چیز کا بہت رنج ہے کہ ندیم افضل چن کے کہنے پر ملکی قوانین‘ معاشرتی اور اخلاقی قدروں کا احترام کرنے والا ’’مختارا‘‘ ہمارے بارے میں کیا سوچتا ہوگا؟
آج ملک کے بڑے منصب پر فائز ایک بڑا شخص جسے وزیراعظم کہتے ہیں‘ ایک بڑی جگہ پر کھڑے ہو کر مریم نواز کو حقارت سے نانی کہتا ہے۔ یہ لفظ پکارتے ہوئے اسکے لہجے میں ایک نفرت ہوتی ہے‘ ایسے لگتا ہے جیسے نانی ایک ناپسندیدہ لفظ ہے۔ اس روز سے وزیراعظم کے پیروکار اپنی ناپسندیدہ عورتوں کو نانی پکارنے لگے گئے ہیں۔ راہ چلتی لڑکیوں پر نانی کی آوازیں کسنے کے کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔ اگر تمہیں کسی سے اختلاف ہے تو اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہوئے اسے غلط ثابت ہو‘ لیکن خدارا چاردیواری میں بیٹھی ہوئی جو ماں کی ماں ہے‘ اُسے حقارت سے پکار کر احساس محرومی کا شکار مت کرو۔ خدارا مقدس رشتوں کے رائج الوقت نام کو نفرت کا استعارہ مت بنائو۔
نفرتیں اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ ہمارے سیاسی مخالف کے گھر میں میت بھی پڑی ہو تو ہم دشنام طرازیاں کرتے ہیں‘ ہم ٹھٹھہ اور مذاق کرتے ہیں‘ ہم جُگتیں لگاتے ہیں‘ نوازشریف کی ماں فوت ہوئی تھی‘ اسکی میت بذریعہ جہاز پاکستان بھیجی گئی۔ کہا گیا…… نوازشریف نے اپنی ماں کی میت پارسل کردی ہے۔ جس ڈبے میں میت ہوت یہے اسے تابوت پکارتے ہیں‘ لیکن اس تبدیلی کے دور میں اس ڈبے کا نام ’’پارسل‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ یہ رسم کسی ورکر نے نہیں ڈالی بلکہ اسکا فیتہ آفیشلی طور پر ایک حکومتی وزیر نے کاٹا ہے۔ کاش تم نے ایک روز کیلئے سیاسی نظریات کو پس پشت ڈال دیا ہوتا۔ تم اپنے سیاسی مخالف سے تعزیت مت کرو‘ تم اُنکی ڈھارس مت بندھائو‘ ماں کی موت پر انہیں جو زخم لگے ہیں‘ ان پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک تو مت ڈالو۔ نوازشریف سے نفرت کرو لیکن رائج الوقت چیزوں کے نام تو نہ بدلو۔ جس ڈبے میں چیزیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہیں اسے پارسل کہتے ہیں۔ جس میں گوشت پوست کے انسان کی میت ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہے اسے تابوت کہتے ہیں۔ خدارا نوازشریف دشمنی میں میت والے تابوت کو پارسل مت کہو۔ آج جس تابوت کو پارسل پکارا جا رہا ہے‘ ماضی میں ہمارے شہیدوں کی میتیں اسی میں آتی رہی ہیں۔ خدارا نوازشریف دشمنی میں اتنا آگے نہ بڑھ جائو کہ ہمارے شہیدوں کے لواحقین کو بھی تکلیف پہنچ جائے۔ اپنی رسوم‘ اپنے کلچر اور اپنی اخلاقی اقدار کا بھرم تو رہنے دو۔ مہنگائی اور معیشت تو کبھی نہ کبھی ٹھیک ہو ہی جائے گی لیکن جس اخلاقی گراوٹ کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے وہ ہمارے معاشرے کو تباہ کردے گی:
ہمارے پائوں اُلٹے تھے فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آگے گئے لیکن‘ بہت پیچھے نکل آئے
…٭…٭…