مچھلی کا شکار اور پیر پگارا

تحریر :عارف الحق عارف
مچھلی کے شکار کاہمیں بچپن ہی سے بڑا شوق ہے اس کی ہزاروں رنگ برنگی اور چھوٹی بڑی قسمیں ہروقت اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کی یاد دلاتی رہتی ہیں۔غذاہیت کے لحاظ سییہ صحت کیلئے بھی بڑی مفید خوراک ہے۔ بچپن میں اپنے گھر کے قریب بہنے والے دریا ‘‘بان’’ میں مچھلی کا شکار ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا۔جو زیادہ تر کانٹے اور ڈوری سے کیاجاتا تھا اور شدید سردیوں میں دریا کے بڑے بڑے گہرے تالابوں میں گرینیڈ کے دھماکے سے مچھلیوں کا شکار بھی کیا جاتا تھا اور ہمیں یاد ہے ایسے کہی مواقع پر ہم یخ ٹھنڈے پانی میں دھماکے سے شہید ہونے والی مچھلیوں کو تالاب سے باہر نکالا کرتے تھے۔ اب اس دور کو یاد کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اسوقت یہ معمول کی بات تھی۔ ہمارے پاس آج کل کی طرح مچھلی کا شکار کرنے کیلئے قیمتی چرخی دار بڑی بڑی کانٹے اور راڈیں اور نائلون کی ڈوریاں نہیں تھیں بلکہ مقامی لوہار کے بنے ہوئے کانٹے اور دھاگے کی بٹی ہوئی ڈوری ہوتی تھی جس میں چھوٹی جھوٹی مچھلیوں اور کیچوے کو چارے کے طور استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کانٹے کو ہم بیڑی کہتے تھے اور اسے دریا کے پانی میں کسی بڑے پتھر کے نیچے ڈال دیا جاتا تھا جہان بام پچھلی دن میں آرام کر تی ہے۔ مچھلی کا شکار بڑا تھکا دینے والا اور صبر آزما ہوتا ہے اس کا شکاری اپنا جال ،کانٹا،راڈ یا ٹوکری سمندر، دریا یا بڑی جھیل کے پانی میں پھینک کر اللہ کے بھروسے پر انتظار کرتا رہتا ہے اور کبھی پورے دن،ایک بھی مچھلی اس کے جال میں نہیں آتی اور قسمت مہربان ہو تو منوں کے حساب سے مچھلیان پکڑی جاتی ہیں۔ پیر پگارا کے ساتھ گہرے سمندر میں مچھلی کے شکار کا ایک واقعہ ہمیں ہمیشہ یاد رہے گا۔جس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں۔ ہمیں کراچی آنے کے بعد گہرے سمندر میں مچھلی کے شکار کا بڑا شوق تھا لیکن اس کا انتظام نہیں ہورہا تھا۔کیوں کہ اس کیلئے بحری بجرے اور ماہی گیر درکار تھے۔ یہ سارا انتظام ہمارے بس سے باہر تھا۔اس کے لئے ہمارے زرخیز ذہن نے بہت سوچ بچار کے بعد ایک قابل عمل منصوبہ بنایا۔ ہمیں علم تھا کہ پیر پگارا کے کئی مریدوں کا کاروبار ماہی گیری ہے۔یہ ٹیکس بچانے کا بھی ایک ذریعہ تھا اور شائد اب بھی ہو۔کیوں کہ اس پر کوئی ٹیکس نہیں تھا چاہے اس سے کتنی زیادہ آمدنی ہو اس لئے لوگ دوسرے کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی کو بھی ماہی گیری کی آمدنی ظاہر کرکے اپنی دوسری جائز ناجائز آمدنی کو سفید کرا لیتے تھے۔ ہم نے سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ پیر صاحب سے مچھلی کے شکار کے اپنے شوق کا ذکر کہی بار کیا اور کہا کہ سائیں دل چاہتا ہے کہ گہرے سمندر میں یہ شکار آپ کے ساتھ ہواور اس میں آپ کے سارے دوست بھی شریک ہوں۔ ہمیں کبھی کبھی یہ کام بھی کرنا چاہیے ہم نے یہ بات روزانہ کسی نہ کسی بہانے ان کے گوش گوار کرنا جاری رکھا۔ایسا لگ رہاتھا کہ ہماری تجویز منظور نہیں تو رد بھی نہیں کئی گئی۔ہماری کوششیں ایک دن رنگ لے آئیں۔مسلم لیگ کے مقامی رہنما جاوید سنگ جی کنگری ہاؤس آئے تو پیر صاحب نے ہماری موجودگی میں انہیں کہا’’ ہم دو ہفتے بعد گہرے سمندری پانیوں میں مچھلی کے شکار کو جائیں گے اس کا انتظام تمہارے ذمہ ہے۔ہمیں بتایا گیا کہ جاوید کے پاس فشنگ کے دو ٹرالے ہیں۔ تیاریاں شروع ہوگئیں۔پیر صاحب نے چرخی والے تین چار قیمتی راڈز منگوا لئے۔قریبی دوستوں کو مقررہ تاریخ اور وقت کی اطلاع دے دی گئی۔جاوید نے دو اور ایک اور مرید نے ایک فشنگ ٹرالے کا انتظام کیا۔ناشتے اور دوپہر میں صرف سی فوڈ مینو رکھا گیا۔سی فوڈ پکانے کے ماہر چیف ڈھونڈ کر لائے گئے۔سب دوستوں کو اطلاع کردی گئی کہ صبح سات بجے کنگری ہاؤس پہنچ جاہیں۔ اسلام آباد سے جنگ کے اظہر سہیل اسی مقصد کے لئے کراچی آئے۔پیر پگارا کے دوسرے دوستوں میں سینیٹر ذوالفقار علی شاہ جاموٹ ، ان کے بھائی ڈاکٹر شفقت علی شاہ جاموٹ،پروفیسر رشید شیخ، جنرل (ر) غلام عمر، جنرل (ر) محمد بشیر، شفیع بوئی خان، بوستان علی ہوتی، جاوید سنگجی، خان محمد مہر اور خلیفہ عاقل ہنگورجوکے نام یاد رہ گئے ہیں۔ جو اس شکاری مہم میں ہمارے ساتھ تھے۔ پوری تیاری کے ساتھ یہ شکاری لشکر گاڑیوں میں ویسٹ وہارف پر اس جگہ پہنچا جہاں سے فشنگ ٹرالروں نے روانہ ہونا تھا۔آٹھ بجے ہمارا سمندری سفر شروع ہوا جو مسلسل چلتے چلتے رات ۱۱ بجے ویسٹ وہارف پر ختم ہوا۔ پیر پگارا اور ہم میں سے اکثر نے چارے کے ساتھ کانٹوں کے راڈز گہرے پانیوں میں ڈالے رکھیلیکن ایسا لگ رہاتھا کہ سمندری جاسوسوں نے مچھلیوں کو ہم شکاریوں کے بارے میں خبردار کردیا تھا۔ کہ کسی کے ہاتھ کوئی مچھلی نہیں لگی۔ تاہم پیر صاحب پھر بھی خوش قسمت نکلے کہ ان کے کانٹے میں سانپ کی قسم کی دو فٹ لمبی ایک مچھلی پھنس گئی۔ہمیں بڑی تشویش ہوئی کہ گھر بتا کر آئے تھے کہ مچھلی کے شکار کو جارہے ہیں لیکن اب خالی ہاتھ گھر واپس کیسے جائیں گے ہم نے اس تشویش کا ذکر پیر پگارا سے کیا تو وہ ہنس کر کہنے لگے’’ ہمیں علم تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔فکر نہ کریں۔ ہم نے اس کا انتظام کررکھا ہے آپ جب کنگری ہاؤْس پہنچیں گے تو آپ کو مچھلی کا پیکٹ مل جائے گا۔آپ خالی ہاتھ نہیں جاہیں گے’’ چنانچہ جب ہم لوگ تھکے ہارے رات ۱۱بجے کنگری ہاؤس پہنچے تو ان کے گھر کا عملہ دودو بڑی مچھلیوں کے پیکٹ لئے کھڑا تھا اور ہر مہمان کو روانگی کے وقت یہ پیکٹ دیئے گے۔اس طرح ہماری عزت سادات رہ گئی۔ ہم آج بھی اس واقعہ کو یاد کر تے ہیں تو محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مچھلی کے شکار کا شوق ہمیں اب بھی ہے اور جب کبھی موقع ملتا ہے تو اس شوق کو پورا کرنے کے لئے مچھلی کے شکار کی کوشش ضرور کرتے ہیں چاہے کچھ ہاتھ آئے یا نہ آئے۔دو دن قبل ہمیں اس کا موقع لاس اینجلس میں سانٹا مونیکا کے پیئر پر ملا جہاں اس مقصد کیلئے سمندر کے اندر شکار گاہ بنائی گئی ہے۔بڑی تعداد میں شکاری اپنا شوق پورا کر ہے تھے۔ہم نے بھی وہاں درجنوں دوسرے شکاریوں کے ساتھ اپنا یہ شوق پورا کیا لیکن ایسا لگا کہ پیر پگارا والے واقعہ کی طرح اب بھی مچھلیوں کو ان کے خفیہ اداروں نے اطلاع دے دی تھی کہ اس جگہ کا رخ مت کرنا۔ شکاری تمہارا شکار کرنے کیلئے پر تولے بیٹھے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں