کراچی: معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین 80 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں۔اہلخانہ کے مطابق حسینہ معین طویل عرصے سے کینسرکے مرض میں مبتلا تھیں۔ حسینہ معین کی نماز جنازہ بعد نماز عصر نارتھ ناظم آباد بلاک آئی میں ادا کی جائے گی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، گورنر سندھ عمران اسماعیل اور صدر آرٹس کونسل احمد شاہ سمیت متعدد شخصیات نے حسینہ معین کے انتقال پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے اور مرحومہ کی مغفرت، درجات کی بلندی اور لواحقین کے لئے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔صدر مملکت عارف علوی کی اہلیہ ثمینہ علوی نے نامور ڈرامہ نگار حسینہ معین کے انتقال پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ میری ایک بہترین استاد تھیں جب کہ مجھے ان سے ملاقات کا اعزاز بھی حاصل ہے، ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی تاہم آج پاکستان نے ایک لیجنڈ کو کھودیا ہے۔پاکستان سے تعلق رکھنے والی ممتاز مصنفہ، مکالمہ نگار اور ڈراما نویس حسینہ معین 20 نومبر 1941 کو بھارت کے شہر کان پور میں پیدا ہوئی تھیں۔ حسینہ معین نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور تقسیم ہند کے بعد ان کا گھرانہ راولپنڈی میں آباد ہوا۔ مگر جلد ہی لاہور منتقل ہوگیا۔ 50 کی دہائی میں کراچی آئیں اور اپنی خداداد صلاحیت کی بنا پر بطور ادیب لکھنا شروع کیا۔حسینہ معین کے ٹیلی وژن کیریئر کا آغاز 1969 میں ہوا جب ’’عید کا جوڑا‘‘ کے نام سے تحریر کردہ ان کا ڈرامہ بے حد پسند کیا گیا۔ اُنہوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے پاکستان اور بیرون پاکستان بہت سے یادگار ڈرامے لکھے۔ان کے مشہور ڈراموں میں پرچھائیاں، دھوپ کنارے، انکل عرفی، تنہائیاں، پل دو پل، دھند، بندش، تیرے آجانے سے، شہ زوری، کرن کہانی، زیر زبر پیش، ان کہی، گڑیا، آہٹ، پڑوسی، کسک، نیا رشتہ، جانے انجانے، آنسو، شاید کہ بہار آجائے، آئینہ، چھوٹی سی کہانی، میری بہن مایا کے علاوہ دیگر مشہور ڈرامے شامل ہیں۔حسینہ معین نے راج کپور کی فرمائش پر بھارتی فلم ’’حنا‘‘ کے مکالمے بھی لکھے جو 1991 میں نمائش پذیر ہوئی تھی۔ پھر اُنہوں نے ایک پاکستانی فلم ’’کہیں پیار نہ ہو جائے‘‘ لکھی تھی۔ اس سے قبل وہ پاکستانی فلم ’’نزدیکیاں‘‘ اور وحید مراد کی فلم ’’یہاں سے وہاں تک‘‘ کے مکالمات بھی لکھ چکی تھیں۔ اُنہیں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی بھی دیا گیا تھا۔