•ڈیموکریٹک سینیٹرز کے تعاون سے خط میں پاکستان کے ساتھ آزادانہ تجارتی معاہدے کے لئے بھی زور دیا جائے گا
• مغرب افغان پالیسی پر پاکستان اور آئی ایس آئی پر بھروسہ نہیں کرتا، پاکستان کے پاس امریکی عوام میں ساکھ بہتر بنانے کا اچھا موقع ہے
•افغان عوام اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہی مصالحت کا واحد حل ہے، طالبان افغانی اور پاکستانی معاشرے کا حصہ ہیں
• انڈیا میں جو کچھ ھورہا ہے، آپ لوگوں کی طرح مجھے بھی تشویش ہے: ریپبلیکن سینیٹر کا ڈاکٹر اعجاز احمد کی رہائش گاہ پر اے پی پیک کی تقریب سے خطاب
نیویارک ( آواز رپورٹ) امریکی ریپبلکن پارٹی کے سینئر رہنما اور یو ایس سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہنا ہے کہ وہ صدر جو بائیڈن اور امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انتھونی بلنکن کو خصوصی خط لکھیں گے اور ان سے استدعا کریں گے پاکستان کے ساتھ جلد مذاکرات شروع کئے جائیں سینٹر لنڈسے گراہم ان خیالات کا اظہار پاکستانی امریکن سیاسی ایڈووکیسی تنظیم امریکن پاکستانی پبلک افئیرز کمیٹی ( اے پی پیک ۔ APPAC) کے چئیرمین ڈاکٹر اعجاز احمد کی رہائشگاہ پر کمیٹی کے بورڈ ممبرز اور پاکستانی امریکن کمیونٹی کی اہم شخصیات سے ملاقات اور خطاب کے دوران کیا.ساؤتھ کیرولائنہ سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن سینیٹر کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے مجوزہ خط میں ڈیموکریٹ سینیٹرز کو ساتھ ملائیں گے تاکہ پاک امریکہ فری ٹریڈ معاہدہ کے حوالے سے غیر جانبدار کوشش کی جائے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ فری ٹریڈ معاہدہ کے سلسلے میں یو ایس سینٹ میں بھی اپنا کردار ادا کرے کریں گے سینیٹر گراہم نے کہا کہ وہ جلد پاکستان کا دورہ بھی کریں گے.انہوں نے کہا کہ وہ خود ریپبلیکن ہیں مگر ڈیموکریٹس سے کہیں گے کہ وہ اس معاملہ میں ان سے تعاون کریں . ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تمام لڑکیوں کو تعلیم کے یکساں مواقع ملنے چاہیں ہم وہاں پر امید زندگی کی توقع رکھتے ہیں میں چاہتا ہوں افغانستان کی مدد کریں تاکہ یہاں امریکنز محفوظ ہوں .دہشت گردوں کی نہیں بلکہ ہماری یہ سوچ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے والی 6 ملین لڑکیاں کبھی نہیں خواہش کریں گی کہ 11 ویں صدی کے افغانستان میں واپس جائیں. سینیٹر لِنڈسے نے کہا کہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے. پاکستان اور آئی ایس آئی کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مغرب افغان پالیسی کے حوالے سے انہیں ناقابل بھروسہ سمجھتا ہے.طالبان افغان معاشرے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستانی معاشرے کا بھی حصہ ہیں. افغانستان کے اکثریت عوام طالبان کو ملک پر حکمرانی کرتے نہیں دیکھنا چاہتے.جس دن ہم نے وہاں گیم تبدیل کیا اپنی فوج واپس بلائی اچانک 20 سال بعد وہاں سب کچھ بکھر گیا ہے. افغان فورسز جنہیں امریکہ کا فضائی سمیت ہر طرح کا تعاون حاصل تھاایک دم بکھر گئے. ہمارے ہاتھ اٹھاتے ہی افغانستان کا تمام کمانڈ انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا.انہوں نے کہا کہ مصالحت کا صرف ایک راستہ ہے کہ افغان عوام اور طالبان کے درمیان امن کا معاہدہ ہونا چائیے.طالبان افغان معاشرے کا حصہ ہیں. انہوں نے افغانستان میں مختلف خطرات کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شمالی اتحاد کی جانب سے مزاحمتی جدوجہد کا امکان ہے وہاں داعش بھی موجود ہے ایران بھی سرحدوں پر چوکس ہے. نسلی تصادم کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں ان حالات میں طالبان کے لئے حکمرانی آسان نہیں. افغانستان میں پاکستان کے کردار کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس موقع ہے کہ وہ امریکی عوام میں اپنی ساکھ بہتر بنا سکتا ہے.اسکا انحصار اسکی افغان پالیسی پر ہے. سینیٹر گراہم نے واضح طور پر کہا کہ طالبان کے لیے کسی طور بھی افغانستان میں کامیابی سے حکومت کرنا ممکن ہے.سینیٹر لنڈ سے نے کہا کہ انڈیا میں جو کچھ ہورہا ہے آپ لوگوں کی طرح مجھے بھی تشویش ہے میرے کافی انڈین حمایتی ہیں. انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے وہاں قوانین میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں وہ قابل تشویش ہیں.انڈیا میں جو مذہبی تناو ہے وہ بھی فکر کی بات ہے.اس موقع پر پاکستانی امریکن کمیونٹی کے مخصوص افراد کے علاوہ میڈیا کے نمائندگان بھی موجود تھے. سینیٹر لِنڈسے گراہم کے لئے فنڈ ریزنگ بھی کی گئی.جن افراد نے شرکت کی ان میں ڈاکٹر طارق ابراہیم،ڈاکٹر یاسمین نازلی،ڈاکٹر محمود عالم، مرزا اسلم بیگ، امجد خواجہ،مرزا خاور،عدنان بخاری، اعجاز بخاری اور دیگر شامل تھے.