48سے 75اراکین نے ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری جو مفادات کے تصادم کے قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے
بیشتر اراکین نے کورونا کے اوائل میں فائزر، جانسن اینڈ جانسن اور میڈونا جیسی بڑی دوا سازکمپنیوں میں پیسہ لگایا اور منافع کمایا
15 ڈیموکریٹس نے تیل کمپنیوں میں سرمایہ کاری، میڈیا پر تنقید کرنے والے اراکین نے میڈیا پر بھی بھرپور سرمایہ کاری کی
وفاقی اداروں کی نمائندگی کرنے والے منتخب اراکین اضافی مالی مراعات حاصل نہیں کر سکتے، تحقیقاتی رپورٹ کے چشم کشا حقائق
نیویارک (آواز رپورٹ) درجنوں اراکین کانگریس اور کم و بیش 85 کانگریشنل سٹاف نے ” مفادات کے تصادم“ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی ہے جن کی وہ خود نگرانی کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض اراکین کو سنگین نتائج ، مقدمات اور دیگر کارروائیوں کا سامنا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق ”مفادات کے تصادم“ کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں میں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں اطراف کے اراکین شامل ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد اراکین مذکورہ قانون کے خلاف متحد نظر آتے ہیں۔ یہ قانون کرپشن کی روک تھام کے لئے بنایا گیا تھا ۔ جو اراکین کانگریس اور دیگر اعلیٰ منتخب عہدیداروں کو سرمایہ کاری اور ذاتی مراعات حاصل کرنے جیسے اقدامات سے روکتا ہے۔ متصادم کانگریس (Conflicted Congress) کے عنوان سے جاری تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے اراکین نے اخلاقی قدروں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی عوامی ذمہ داریوں سے تجاوز کرتے ہوئے مالی مفادات کے لئے قانون کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ رپورٹ میں تمام اراکین کے ہزاروں مالیاتی ریکارڈ کی چھان بین کی گئی ہے۔ بعض اراکین خاصے بااثر ہیں اور دونوں جانب سے فیصلہ سازیوں کے لئے اہم تصور کئے جاتے ہیں۔ ایسے اراکین کی تعداد 48 کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ 185 سینٹر سٹاف ممبران نے بھی کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 75 کے لگ بھگ وفاقی قانون سازوں نے 2020 میں کووڈ 19 کی ویکسین بنانے والی کمپنیوں مڈرنا (Moderna)، جانسن اینڈ جانسن (J&J) یا فائزر میں سرمایہ کاری کی۔ جن میں سے بیشتر نے کورونا کے ابتدائی ہفتوں میں مذکورہ کمپنیوں میں سٹاک بیچے اور خریدے ہیں۔ یہ قانون ساز امریکی دفاعی پالیسی ترتیب دینے والوں میں بھی شامل ہیں جوملٹری فوجی کنٹریکٹرز کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں۔ 15 سے زیادہ ڈیموکریٹس نے ماحولیات سے متعلق فوصل کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ میڈیا کو مسلسل تنقید کا نشانہ اور لعن طعن کرنے والے متعدد اراکین نے ملک کے بڑے بڑے نیوز میڈیا یا سوشل میڈیا کمپنیوں میں بھی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ جن میں فیس بک ، ٹوئٹر، کام کاسٹ، ڈزنی اور نیویارک ٹائمز جیسے نیوز ادارے اور کمپنیاں شامل ہیں.