اسلام آباد: ملکی ماہرین اقتصادیات اور عوام یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان کا موجودہ اکنامک فریم ورک ناکارہ ہوچکا ہے اور اسے نئے سرے سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔مختلف کاروباری انجمنیں بالخصوص چیمبر آف کامرس اور صنعتیں ان معاشی اصلاحات کا تعین کرنے کی کوشش کررہی ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز متفق ہوسکیں اور جن پر مستقبل میں حکومتوں کی تبدیلی سے قطع نظر کام جاری رہ سکے۔ اس سلسلے میں وہ میثاق معیشت پر دستخط کرنے کے لیے ماہرین کی رائے معلوم کرنے کے علاوہ بڑے سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔
متعدد ممالک معاشی اصلاحات کے ذریعے اپنے اقتصادی بحرانوں پر قابو پاچکے ہیں۔ پاکستان بھی یہ کرسکتا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی اقتصادی مشکل جامد برآمدات ہیں۔ عالمی برآمدات میں پاکستان کا حصہ ڈیڑھ فیصد سالانہ کی شرح سے کم ہوتا جارہا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ کم شرح خواندگی ہے۔وہ کبھی خوشحال نہیں ہوسکتی جہاں شرح خواندگی کم ہو۔
گزشتہ مالی سال کے اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کا تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا محض 1.77 فیصد تھا جو عالمی اوسط کے نصف سے بھی کم ہے۔ تیسرا مسئلہ وسائل پر ایلیٹ کلاس کا قابض ہونا ہے جس کی وجہ سے عوامی وسائل کا رخ چند افراد کے مفاد کی جانب موڑ دیا جاتا ہے۔یو این ڈی پی کی 2021ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا بااثر طبقہ 17.4 ارب ڈالر کی اقتصادی رعایتیں حاصل کررہا ہے۔ برآمدات میں اضافے کے لیے ہمیں اپنے عالمی اور علاقائی تعلقات وسیع کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ ٹیکسیشن اور تجارتی پالیسیوں میں اصلاحات لانی ہوں گی۔شرح خواندگی بڑھانے کے لیے بجٹ میں تعلیم کا حصہ بڑھانا ہوگا اور فنی تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ مزیدبرآں بااثر طبقے کو حاصل کردہ تمام اقتصادی مراعات ختم کرنی ہوں گی۔