اسلامو فوبیا صرف انتہا پسندوں تک محدود نہیں ، ریاستی ادارے بھی سرپرستی کرتے ہیں: بلاول بھٹو

اقوام متحدہ میں اسلامو فوبیا کے تدارک کے عالمی دن کے موقع تاریخ ساز تقریب سے پاکستان کے وزیر خارجہ کا خطاب، سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش اور جنرل اسمبلی کے صدر کاسابا کو روسی بھی موجود تھے


نیویارک ( آواز رپورٹ )پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کی بڑھتی لہر پر افسوس و تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کو غیر منصفانہ طریقے سے نشانہ بنایا جارہا ہے.ہمارے پیارے نبی نے ہمیں سب کے ساتھ مذہب، رنگ ونسل و ثقافت سے قطع نظر عزت اور احترام سے پیش آنے کی تعلیم دی ہے.اسلام میانہ روی،برداشت اور اجتماعیت کا مذہب ہے. وہ اقوام متحدہ میں اسلامو فوبیا کے تدارک کے عالمی دن کے موقع پر تاریخی تقریب سے خطاب کررہے تھے.وہ جنرل اسمبلی کے صدر کاسابا کروسی(Csaba Korosi) بھی موجود تھے. او آئی سی/ سی ایف ایم کے چئیرمین کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اسلامو فوبیا بیانیہ صرف انتہا پسندوں کے پروپیگنڈے تک محدود نہیں بلکہ اسے میڈیا،تعلیمی شعبوں،پالیسی سازوں اور ریاستی اداروں کے کچھ حصوں نے بھی قبول کیا ہے.اس تاریخ ساز دن کے شرکاء میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش،او آئی سی کے سیکریٹری جنرل برہیم طحہ،اقوام متحدہ کے اتحاد برائے تہذیب ( UNAOC)کے اعلی نمائندے،میگوئیل موراٹیونس اور دیگر شامل تھے.انہوں نے ہر سطح پر انسانی حقوق کے احترام پر رواداری اور امن کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے بین الاقوامی کوششوں کو مظبوط کرنے کا مطالبہ کیا ہے.انہوں نے کہا کہ کرائسٹ چرچ( نیوزیلینڈ) میں المناک واقعہ اور کوئی دوسرے افسوسناک سانحات اس بات کی سنگین یاددہانی ہے کہ ریاست کے زیرانتظام اسلاموفوبیا کی لہر پوری دنیا میں پھیل رہی ہے.انہوں نے کہا کہ حجاب کی سیاست، مقدس کتاب قرآن پاک کی بے حرمتی اور ہمارے پیارے نبی کی توہین مسلمانوں کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے.اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں کسی کو بھی مقدس ہستیوں اور کتابوں کی توہین و بے حرمتی کی کسی طور بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے.بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اسلامی شعائر اور مقدس مقامات کی گستاخی پر احتجاج کیا جائے تو اسے دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے.اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے اسلامو فوبیا کے تدارک کے لئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں کہا کہ مسلمان ذاتی حملوں، نفرت انگیز بیان بازیوں اور دقیانوسی تصورات کا بھی شکار ہیں.عدم برداشت کے یہ واقعات سرکاری اعدادوشمار میں ظاہر نہیں ہوتے. لیکن یہ لوگوں کے وقار اور انسانیت کو مجروح کرتے ہیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں