اسلام آباد: سپریم کورٹ کا سات رکنی لارجز بینچ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے، جسٹس قاضی فائز اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراض کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ گزشتہ روز ٹوٹ گیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر بینچ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔سماعت شروع ہوئی تو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آئے اور تحریری دلائل بھی جمع کروا دیے۔وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ میری درخواست باقی درخواستوں سے کچھ الگ ہے، میں اس پر دلائل نہیں دوں گا کہ سویلین کا ٹرائل آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا اور یہ بھی نہیں کہتا کہ ملٹری کورٹس کے ذریعے ٹرائل سرے سے غیر قانونی ہے جبکہ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ 9 مئی کو کیا ہوا کیا نہیں۔
سول سوسائٹی کے وکیل نے کہا کہ سویلین کے ٹرائل کی ماضی میں مثالیں ہیں، فوجی عدالتوں میں فوج داری ضابطے کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی اس لیے اس کو چیلنج نہیں کیا اور میں نے کسی ملزم کی بریت کو چیلنج نہیں کیا، ملزمان کو فوج کے حوالے کرنے کے عمل میں مخصوص افراد کو چنا گیا۔
انہوں نے دلائل میں کہا کہ آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، عدالت میں جا کر کہا گیا 15 لوگوں کو حوالے کر دیں، جن افراد کا انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل ہوگا ان کو اپیل کا حق ملے گا لیکن جن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا انہیں اپیل کا حق حاصل نہیں۔فیصل صدیقی کی جانب سے لیاقت حسین، سعید زمان اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے کیسز کا حوالہ دیا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کون سے ایسے مخصوص حالات ہیں جن میں ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔ فیصل صدیقی نے بتایا کہ عدالتی فیصلے یہ کہتے ہیں کہ واضح تفریق ہونی چاہیے اور ہم نہیں کہتے کہ لوگوں کا سخت ٹرائل نہ ہو، انسدادِ دہشت گردی عدالت سے زیادہ سخت ٹرائل کہاں ہو سکتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیشنل سیکیورٹی کے باعث کہا گیا کہ یہ ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا، اسٹیٹ سیکیورٹی کی حدود میں جائیں گے تو پھر ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونے کا ذکر ہے۔ جسٹس مظاہر اکبر نقوری نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کو کب شامل کیا گیا؟
فیصل صدیقی نے کہا کہ اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ جسٹس یحیحی آفریدی نے دیا تھا، اکیسویں ترمیم کے نتیجے میں بننے والی فوجی عدالتوں کے فیصلے اعلی عدلیہ میں چیلنج ہوئے تھے۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ سویلینز کا کن حالات میں فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ اکیسویں ترمیم کیس میں عدالت نے کہا تھا ٹرائل کے لیے آرمی ایکٹ کے ساتھ تعلق ہونا لازمی ہے، کوئی نہیں کہتا 9 مئی کے ملزمان کا سخت ٹرائل نہ ہو۔جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ نہیں سمجھتے کہ پہلے اٹارنی جنرل سے پوچھا جائے کہ مقدمات کیسے بنے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ دلائل جاری رکھیں وکلاء کے بعد اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہو سکتا ہے اٹارنی جنرل کل مانگی گئی تفصیلات پر آج بیان ہی دیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ کب عدالت نے پوچھا تھا کہ یہ درخواستیں پہلے ہائیکورٹ میں نہیں جانی چاہیے تھیں، ایک سے زیادہ صوبوں کا معاملہ ہے ایک ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بن سکتا، یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں ہی قابلِ سماعت ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کیا درخواستیں قابلِ سماعت ہونے کی حد تک آپ کے دلائل مکمل ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ جی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے تک دلائل مکمل ہیں اب آگے چلتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ہوسکتا ہے جن لوگوں کو ملٹری کورٹس کے حوالے کیا گیا ان پر الزامات کی نوعیت الگ ہو، آپ صرف مفروضوں پر کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی شواہد موجود نہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ عمومی بحث پر جا رہے ہیں یہ بھی علم نہیں ان لوگوں کو کس کس شق کے تحت ملٹری کورٹس بھیجا گیا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فرض کریں ان کے خلاف شواہد بھی موجود ہیں تو دکھاوں گا کہ انہیں کیسے ملٹری کورٹس نہیں بھجا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپنے دلائل کے متعلقہ نکات تک محدود رکھیں، آج کا دن درخواست گزاروں کے لیے مختص ہے بے شک تین بجے تک دلائل دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ملٹری کے اندر کام کرنے والا بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، آپ بتائیں ملٹری کورٹس میں کسی کو ملزم ٹھہرانے کا کیا طریقہ ہے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق ممنوعہ علاقوں، عمارات اور کچھ سول عمارات پر بھی ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ آپ ابھی تک بنیادی پوائٹ ہی نہیں بنا سکے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں اور اگر ایف آئی آر میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ہی شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ملزمان کی حوالگی مانگ سکتا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ سے دو سوال پوچھ رہے ہیں اس پر آئیں، آپ پراسس بتائیں آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوگا، آرمی کے اندر اس فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے۔ کیا ہمیں مکمل تفصیلات حاصل ہیں کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت فوج کیسے کسی کو ملزم قرار دیتی ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے ریماریس دیے کہ ہم تو کہہ رہے ہیں ہمارے سامنے کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ حقائق سامنے نا بھی ہوں تو بھی یہ کیس بادی النظر کا بنتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے اطلاق کے لیے اندرونی تعلق کا ذکر ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ فوج کیسے یہ طے کرتی ہے کہ فلاں شخص کو ملزم بنا کر اس کے خلاف فوجی ٹرائل کرنا ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ضابطہ فوجداری میں کسی شخص کو ملزم بنانے کا طریقہ کار ہے لیکن یہ طریقہ کار آرمی ایکٹ میں کہاں لکھا ہوا ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ فوج کے قوانین فوج کے لیے ہی ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ فوج کو جب کوئی شخص مطلوب ہو تو وہ کس طریقے کار کے تحت لیتی ہے۔فیصل صدیقی نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں شکایت یا ایف آئی آر کا کوئی طریقہ کار نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایک کمانڈنگ افسر مجسٹریٹ کے پاس جاتا ہے تو کس بنیاد پر جا کر بندہ مانگتا ہے؟ مجسٹریٹ کے پاس آنے سے پہلے کمانڈنگ افسر گھر میں کیا تیاری کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شوائد پر ہوئی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں شکایت کو ایف آئی آر کے طور پر لیا جاتا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق تو پھر سول عمارات پر بھی ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وہ زیادہ پیچیدہ ہو جائے گا آپ ان مقدمات میں پراسس کا بتائیں۔