راولپنڈی: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے پارٹی کے ٹکٹوں کی تقسیم سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم ٹکٹ کس کو ملے ہیں، عدالت کی اجازت کے باوجود ٹکٹوں کے بارے میں مجھ سے مشاورت نہیں کی گی۔اڈیالہ جیل میں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت ہوئی، جیل میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں بانی چئیرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہمارے بلے کا کیس سپریم کورٹ میں ہے، عدالتی حکم کے باوجود ٹکٹوں پر مشاورت نہیں کرنے دی گئی۔شیخ رشید کی حمایت نہ کرنے کے حوالے سے سوال پر انھوں نے جواب دیا کہ ایک ایک اصول وضع کیا ہے جس نے پارٹی کے خلاف پریس کانفرنس کی اس کو ٹکٹ نہیں دیں گے۔بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ اٹھارہ ماہ قبل کہا تھا مذاکرات کریں لیکن اب کس سے مذاکرات کروں اور کیوں کروں، ایک ہی بات پر مذاکرات ہوسکتے ہیں کہ ملک میں صاف و شفاف انتخابات ہوں، سپریم کورٹ سے دو ججوں کے استعفیٰ پر تشویش ہے، دیکھتے ہیں سپریم کورٹ کیا اسٹینڈ لے گی۔بانی چئیرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہم سے بلے کا نشان اس لیے واپس لیا گیا تاکہ ہماری پارٹی توڑی جاسکے اور الیکشن نہ لڑ سکیں، جو مرضی یہ کرلیں ہم آخری بال تک لڑیں گے، صحافی نے پوچھا آپ بار بار جنرل باجوہ کا نام لیتے ہیں کیا فیض حمید کو بھی اپنا ملزم سمجھتے ہیں، جواب میں انھوں کہا کہ فوج سیاسی جماعت نہیں آرڈر اوپر سے آتا ہے ایک آدمی فیصلہ کرتا ہے، ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ سے کسی غیر ملکی سفیر یا اسٹیبلشمنٹ نے کوئی رابط کیا ہےتو بانی چئیرمین کا کہنا تھا کہ مجھ سے کسی نے رابط نہیں کیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ 2018 میں ہماری نشستیں کم کر کے ہمیں پھنسایا گیا، 2018 میں 15 نشستیں 3 ہزار ووٹوں کے کم مارجن سے ہارے، آر ٹی ایس بیٹھنے کا زیادہ نقصان ہمیں ہوا۔غیرملکی جریدے میں شائع ہونے والے مضموں کے حوالے سے سابق وزیراعظم نے کہا کہ غیر ملکی جریدے میں چھپا آرٹیکل وکلا کو زبانی طور پر ڈکٹیٹ کیا تھا، وکلا کو ہدایت کی تھی کہ میرے وی لاگز سے باقی چیزیں اٹھائی جائیں۔بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ نواز شریف کو اچھی طرح جانتا ہوں وہ دو امپائرز کے بغیر میچ نہیں کھیلتا، نواز شریف لندن پلان کے تحت گارنٹی لے کر پاکستان آیا ہے، ہماری انڈر 16 کو بھی نہیں کھیلنے دیا جا رہا، ہماری انتخابی مہم کا نعرہ غلامی نا منظور ہوگا، ملک میں قانون و انصاف کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، مریم نواز، شہباز شریف اور آصف زرداری کے کیسز کو کوئی نہیں پوچھتا، میرے ساتھ یہ سب کرکے مثال قائم کی جا رہی ہے۔
کارکنان کی شکایات
سماعت سے قبل عمران خان جب کمرہ عدالت میں پہنچے تو کارکنوں نے ٹکٹوں کی تقسیم سے متعلق شکایات شروع کر دیں اور کہا کہ این اے-57 میں خصوصی نشست پر نامزد امیدوار جنرل سیٹ پر بھی الیکشن لڑنا چاہتی ہیں۔پی ٹی آئی تحصیل ٹیکسلا کے صدر علی خان نے اپنے خلاف 16 مقدمات کے اندراج کے بارے میں آگاہ کیا، این اے-105 سے آئے ہوئے ایک کارکن نے کہا کہ خان صاحب مجھے ٹکٹ نہیں دیا گیا، این اے-57 سے انجینئر افتخار نے ٹکٹ نہ ملنے کا شکوہ کیا۔کارکنان کی شکایت پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ مجھے ٹکٹوں کے بارے مشاورت کی اجازت نہیں دی گئی، مجھے نہیں معلوم کس کو ٹکٹ ملا کس کو نہیں، 850 ٹکٹوں کے بارے میں زبانی کلامی کیسے فیصلہ کرسکتا ہوں۔عدالت کی ہدایت پر سردار شہباز کھوسہ نے بانی پی آئی سے پوچھا کیا میڈیا کے کسی اور رکن کو اندر بلایا ہے، جس پر بانی پی ٹی آئی نے کھڑے ہوکر جج سے مکالمہ کیا کہ کیا ہماری چیزیں میڈیا میں رپورٹ میں ہوتی۔بانی پی ٹی آئی نے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے بھی پوچھا کہ کیا میری کوئی چیز رپورٹ ہورہی ہے تو صحافیوں نے جواب دیا کہ آپ کی ہر چیز رپورٹ ہورہی ہے، جس پر عمران خان نے حیرانی سے صحافیوں سے پوچھا کیا کیا کہہ رہے ہیں، صحافیوں نے وضاحت کی کہ ایسا ہی ہے، آپ کی ساری گفتگو میڈیا میں رپورٹ ہو رہی ہے۔اڈیالہ جیل میں عدالت نے دو صحافیوں روسٹم پر بلا کر کہا کہ جو صحافی اڈیالہ جیل میں ہونے والی سماعت کور کرتے ہیں ان کی فہرست بنا لیں، صحافیوں نے کہا جیل انتظامیہ جتنے صحافیوں کی فہرست مانگے گی ہم دینے کو تیار ہیں، جس پر عدالت نے کہا آپ فہرست فراہم کریں بعد میں ردوبدل کرتے رہیں گے۔
توشہ خانہ کیس کی سماعت
پی ٹی آئی کے بانی چئیرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کی اوپن کورٹ سماعت اڈیالہ جیل میں ہوئی جہاں مزید چار گواہوں کا بیانات قلم بند کرلیے گئے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ کیس کی اوپن سماعت کی، عدالت میں نیب پراسیکیوٹرز، وکلا صفائی، بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی اور 11 صحافیوں اور پی ٹی ئی کے 25 کارکنوں کو رسائی دی گئی۔عدالت نے مزید چار گواہان کے بیانات قلم بند کیے اور سماعت پیر(15 جنوری) تک ملتوی کر دی۔