ممتاز حسین ۔نیو یارک
پاکستان کی سیاست بھی بڑی عجیب ہے ۲۰۱۹ ء سے لیکر آج تک مقدرہ کے ساتھ مل کر نواز شریف اینڈ کمپنی جو کھیل کھیل رہی ہے اس کا نتیجہ ریاست کی تباہی اور انتظامی ڈھانچے کی نا کام مکمل طور پر ایاں ہے اب اندن جا کر وہ کیا اپنے علاج کے لئے وہاں قیام کریں گے؟ یا وہاں کچھ سیاسی ملاقاتیں بھی کیا کریں گے ؟ اس کے لئے ہمیں بس ایک مہینہ انتظار کرنا ہو گا ستمبر ۱۶ کو وہ لندن سدھار جائیں گے اور پیچھے سے میں ممکن ہے آر اوز یاسمین راشد کو فاتح قرار دیکر میاں کا پتہ بالکل صاف کر دیں پھر باقی ماند و زندگی میاں نواز شریف اندن میں اپنی تقیا نیلی کے ساتھ گزاریں گے اس بات کا زیادہ امکان یہی ہے کہ شائد تقدیر میں اب ان کے لئے اتنا ہی لکھا گیا ہے لندن کیوں کہ پاکستانی ریاست کے لئے بہت زیادہ اہم ہے اور ہماری ہر قسم کی سیاسی عسکری بھگوڑی قیادت لندن میں ہی قیام پزیر ہوا کرتی ہے اور برطانوی سامراج کی پوری پوری سپورٹ کے ساتھ ریاست پاکستان کے بارے میں پلاننگ ہوا کرتی ہیں آج سے نہیں بلکہ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے ہم آج بھی کلونیل سوچ کے ساتھ جی رہے ہیں ہم خود کو آج بھی محکوم سمجھتے ہیں اور ہم دماغی طور خود کو آج بھی غلامانہ طرز زندگی اپنانے ہوتے ہیں ہم آزاد ہو کر بھی نام ہیں اور یہ غلامی نسل در نسل ہم میں چلی آرہی ہے معلوم نہیں ہم حقیقت میں کب آزادی کو محسوس کریں گے اور ایک حقیقی آزادی کے ساتھ جینا شروع کریں گے ؟ اس کا ہمیں خود بھی اندازہ نہیں اور آگے بھی ایسی کسی آزادی کے آثار دیکھائی نہیں دیتے دیکھیں ناں میاں صاحب ہوں ، بلوچی قیادت ہو، ایم کیوایم کی اصلی قیادت جو سب لندن بیٹھے پاکستان پر اپنی منحوس حکمرانی چا یا کرتے ہیں اور ہم پاکستانی قوم ہوتے تو کب سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی ہم ان جیسے کالے انگریزوں کے نیچے جنے چلے جارہے ہیں قوم کی بجائے ہم ایک بے ہنگم ہجوم میں یہی وجہ ہے کہ ہمارے مقابلے میں وہ پڑوسی ممالک جو ہم سے قرض لیا کرتے تھے آج ہم سے ہزاروں میل آگے نکل کے جاچکے ہیں ہماری حالت اس مریضہ کی ہے جس کو آئی سی یو میں وینٹی لیٹر لگا دیا گیا ہے ہم اس مریضہ کی مانند نہ حقیقت میں جی رہے ہیں نہ مرے ہوئے ہیں۔ ہماری حالت ایسی بنادی گئی ہے کہ ہم بس زندگی گزارنے میں خود کی عافیت سمجھتے ہیں جب ہماری حالت ہی ایسی ہے تو ہم نے کیا امت کا سوچنا ہے؟ کیا عوام کی بہتری کا ؟ روزانہ مرتے ہیں روزانہ پھر سے جینے کی جستجو میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ بجلی کے بلوں سے ستائے پاکستانیوں کی حالت ایسی کر دی گئی ہے کہ ان کے پاس مرنے کی بھی فرصت نہیں۔ احتجاج کیا کریں ؟ کہاں کریں؟ انکی سوچ وہاں تک جاہی نہیں پاتی۔ پھر موجودہ حکومت کیوں کہ فارم سنتالیس کی پیداوار ہے ان کو عوام کے درد اور حقوق کی کیا فکر ؟ ان کو کس بات کا ڈر ؟ جب روٹ ہی نہیں لئے نہ ہی آگے ان کو پڑنے ہیں تو پھر کیوں وہ عوام کے غصے یا تحریض و غضب کی فکر کریں؟۔ ہماری تمامتر کوششیں آج کیسے دن پاس ہو جائے کل کی کل دیکھی جائے گی اور اسی سوچ نے ہماری مقتدرہ کو اتنا طاقتور کر دیا ہے کہ ان کو اس بات کی کوئی فکر ہی نہیں رہی کہ عوام کیا سوچتے ہیں ؟ عوام کیا چاہتے ہیں اور عوام کا اصل مسئلہ ہے اور کیا ؟ ان تمام چیزوں سے موجودہ سیٹ کو بے نیاز کر دیا ہے جس کسی کو بھی دیکھیں وہ اپنا الو سیدھا کرنے میں لگا پڑا ہے۔ یوں تو مولا نا فضل الرحمان خود کواپوزیشن کی جان سمجھتے ہیں لیکن پچھلے دنوں ان کی صدر سے ملاقات اور پھر کے پی کے میں پی ٹی آئی سے سینیٹرز کی مانگ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے عوامی غصے کی کسی کو کوئی پروا تک نہیں مخصوص نشستوں کے فیصلے کو خلاف قومی اسمبلی میں ایک بل جمع کرا کر پی ٹی آئی کو ڈز پہنچانے میں کوشاں ہے تو دوسری جانب اپنی جماعت کے لئے پی ٹی آئی کی حمایت کرنے کے بدلے دومینیٹرز کی سیٹیں مانگ لیہیں یوں بل پاس ہوتا ہے تو دوسرے الفاظ میں وہ حکومت کے ساتھ شامل ہو گئے اور اگر بل واپس لینے کے بدلے اپنے مزید دوارکان ایوان بالا میں پہنچا لیتے ہیں تو اس سے بڑی خوشی اور کامیابی کی کوئی بات نہیں۔ لندن ٹو اسلام آبا د ولندن پلان میں سب سے بڑا کامیاب انسان اس وقت اس موجودہ سیٹ اپ میں مولا نا صاحب ہیں جن کو پچھلے چند ہفتوں میں وہ پزیرائی ملی ہے جسکے وہ حقدار ہی نہیں تھے اب آگے چل کر دیکھا یہ جائیگا کہ عمران خان کی ذات کے حوالے سے کیا ان کو کوئی ریلیف مل پائے گا ؟ کیا وہ جیل سے باہر اپنی رہائش گاہ پر نظر بند دیکھائی دیں گے ؟ اگر عمران خان کے لئے ایسی کوئی نوید نہیں تو پی ٹی آئی کی اخلاقی حقیقت کہاں اسٹینڈ کرے گی ؟ یہ آنے والا وقت پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف کے لئے فیصلہ کریگا تب تک ہمیں میاں صاحب لندن جا کر کیا گل کھلاتے ہیں اس کا انتظار کرنا ہو گا۔ حالات پاکستان کے اندرونی طور پر بہت ہی زیادہ خراب ہیں ہمیں اس طرف پوری توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ایسا نہ کریں کہ بعض عمران خان میں ہم ریاست کو نا قابل برداشت نقصان کی جانب دھکیل دیں جہاں ہماری معافی تلافی بھی نہ ہو سکے۔ بہتکچھ سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ رحم کریں خدارا!!
