’’خدا ہی جانے‘‘

(ممتاز حسین نیو یارک)
اس وقت ملک میں جو صورت حال موجود ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسی انار کی کی جانب گامزن ہیں جس کا دوسرا سرا معلوم ہی نہیں ہم کیا چاہتے ہیں ریاست کیا چاہتی ہے؟ اور ہماری در حقیقت سمت ہے کیا ؟ کسی کو کوئی پتہ نہیں۔ جس کو دیکھو اپنی الاپ رہا ہے اور اس سے کیا ہے ملک کا بیڑاغرق اور قوم میں بے چینی پھیلی چلی جارہی ہے ہم چاہ کر بھی ایک قوم نہیں بن پا ر ہے اور رہی سہی کسر ہماری سیاسی لوگوں اور اسٹبلشمنٹ کی ضد نے پورا کیا ہوا ہے اسلام آباد کا جلسہ جس کی اجازت ریاست نے خود دی اور اپنے تائیں پوری طاقت کے ساتھ رکاوٹیں بھی کھڑی کیں تا کہ شرکاء￿ کی تعداد کو جتنا کم کیا جا سکے کم کیا جائے اور ہم یہ ثابت کر دیں کہ اب عوام سوئی ہوئی ہے اور عمران خان اور اسکی جماعت کے ساتھ کوئی پاکستانی موجود نہیں لہذا اس وقت تک ہم نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ مکمل طور پر عوام کے مفاد میں کیا اور عوام عمران خان کے ساتھ نہیں بلکہ ہمارے اور ہماری بنائی گئی فارم ۴۷ کی پیدا وا رکھٹ پتلی حکومت کے ساتھ ہے یہ ایک دیوانے کا خواب تو سہی لیکن در حقیقت میں اس کا بیچ کے ساتھ کوئی دور دور تک کوئی واسطہ نہیں اور پھر پاکستان تحریک انصاف کے کامیاب جلسے کے بعد جس میں کوئی شک نہیں عوام کی کثیر تعداد نے نہ صرف شرکت کی بلکہ انکی والہانہ وہاں شرکت جمع ہونا اور اتنی تختیوں کے باوجو د پنڈال میں پہنچ جانا یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے کیوں کہ عمران خان کے بغیر اتنے لوگوں کا جمع کر لیا جانا موجودہ بچی کچھی پی ٹی آئی کے لئے بہت بڑی بات ہے جب پوری ریاست اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان کے خلاف صف آراء￿ ہوا ایسے حالات میں پاکستان تحریک انصاف کا اتنا بڑا جلسہ کر لینا از خود بہت بڑی کامیابی تصور ہوگی جلسے میں نو ڈاؤٹ علی امین گنڈا پور نے بے تکی اور بے پر کی چھوڑیں اور اسی ایک کی تقریر نے پورے جلسے کی تہس نہس کر ڈالی کیوں کہ انکی تقریر میں ایسی زبان استعمال کی گئی تھی جو ایک صوبے کے وزیر اعلی کو زیب نہیں دیتی اس لئے اسلام آبا داور پنڈی کے طاقت ور حلقوں نے اگلے ہی دن اسمبلی کے اندر سے پاکستان تحریک انصاف اور سنی کونسل کے درجنوں ایم این ایز کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ کہ ان کو ایسی جگہ رکھا گیا جہاں نہ میڈیا کو رسائی تھی نہ ہی ان کے وکلاء کو معلوم تھا کہ انکی قیادت کو کہاں رکھا گیا۔ التوں میں ان میں سے اکثر لوگوں کو بیل تو مل گئی لیکن ملک میں خوف اور لاقانونیت کی ایسی داغ بیل ڈال دی گئی جس سے آنے والے دنوں میں موجودہ سیاسی قیادت کو بہت ہی مشکل وقت سے گزرنا پڑے گا اور ایسے میں ریاست کیلئے اپنا وجود برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہو جائیگا میں پہلے دن سے کہ رہا ہوں دنوں فریقین کو ٹھنڈے دل سے دو دو قدم پیچھے ہٹنا ہی ہوگا اور اپنی انااور ضد کے درخت سے نیچے اتر کر عوام اور پاکستان کیلئے اپنے اپنے ہتھیار پھینکنے ہونگے اسی میں ریاست ،عوام اور ان دونوں فریقین کی بھلائی پوشیدہ ہے وگرنہ دوسری صورت میں ملک و قوم کو نقصان ہماری دہلیز پر دستک دے چکا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہمیں ایسی کوئی دستک کبھی وقت پر سنائی نہیں دیتی اور جب ہم کوئی بہت بڑا نقصان اٹھاتے ہیں تب ہی ہماری آنکھیں کھلتی ہیں اور تب تک ہمارا بہت نقصان ہو چکا ہوتا ہے اب یہی دیکھ لیں پارلیمنٹ لو جز سے پاکستان تحریک انصاف کے ایم این ایز کو اس طریقے سے گرفتار کرنا کسی بھی لحاظ سے ہی نہیں یہ آرٹیکل چھ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور ایسے میں جب ملک میں معاشی بد حالی منہ چڑا رہی ہوا اور آئی ایم ایف کی وجہ سے ہم نے عوام پر کسز کی ایسی بھر مار کی ہے جس کی وجہ سے عوام کا واپڈا کے بجلی بل دینا مشکل ہو چکا ہے حکومت ہے کہ عوام پر ہر آنے والے دن کوئی نہ کوئی نیا ٹیکس تھوک ڈالتی ہے جس سے عوام کا جینا حرام ہو چکا ہے ایسے میں کے پی کے میں عوام کے ووٹوں سے بنے والی آمبلی کے ساتھ کسی قسم کا گورنری راج اس صوبے کی عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیگا اس لئے ہماری ریاست کے طاقت ور حلقوں کو چاہئے کہ وہ طاقت نشے میں ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کریں جس سے ملک کی سالمیت ہی داؤ پر لگ جائے اور ہم پھر ملک کے ساتھ کوئی بہت بڑا سانحہ کر ڈالیں بلوچستان میں پہلے ہی حالات بہت ہی زیادہ خراب ہیں اور کے پی کے میں ایسی کسی غیر قانونی حرکت ریاست کے گلے پڑ سکتی ہے یوں میری یہی التماس ہو گی کہ خدا کے لئے اب تو بس کریں اور عوام جس کا کوئی پرسان حال نہیں آئے دن وہ اپنی قسمت کو کوستے ہوئے جنے چلے جا رہے ہیں اور مہنگائی اور ملک میں غیر قانونی حرکتیں ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گی۔ ابھی بھی وقت ہے ہم سیاسی لوگوں کو ان کا کام کرنے دیں اور جن کے ذمے جو کام لگا دیا گیا ہے وہ اس کام پر فوکس کریں اسی میں ہم سب کی بھلائی ہو گی خدا کے لئے ہوش کے ناخن لیں ملک سے کریم کلاس ویسی ہی بھاگ چکی ہے پیچھے ایسے لوگ آن بچے ہیں جن کو الف ب کا پتا نہیں۔ رحم کریں ترس کھائیں ہم مزید کسی ایڈونچر کے تحمل نہیں ہو سکتے خدارا سوچیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں